Posts

Showing posts from December, 2019

نئے سال کی نئی صبح میں

نئے سال کی نئی صبح میں کچھ بھی تو جاناں نیا نہیں ہے وہی دھندلے منظر وہی ہوائیں پتوں کا لڑکھڑانا نیا نہیں ہے وہی میرا رونا اور تیرا مسکرانا یہ دل کا لگانا نیا نہیں ہے وہی خوشی کا قحط وہی دکھ کی جنت یہ دور ہے پرانا نیا نہیں ہے مصباح چوہدری

خدارا کشمیر کو کشمیر رہنے دو

کشمیر کہنے کو خوبصورت وادی جنت نظیر خطہ۔ لیکن سوچیں تو ہر خیال نعشوں سے بھرا ہوا لکھنے بیٹھو تو خون سے سینچے لفظ آنکھوں سے بہتی ندیاں ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور ڈوبتا دل لفظوں کو کاغذ کی زینت بننے نہیں دیتے۔ جذبات کا اپھلتا سمندر رگوں میں ٹھاٹھیں مارتا لہو بےبسی کے ساحل پہ آکے دم توڑ دیتا ہے۔ سچ کہا حریت رہنما علی گیلانی  نے آج اگر کشمیری مر جایئنگے تو اللہ ہم سب سے حساب لے گا انکی جانوں کا حساب۔ انکی عزتوں کا حساب۔ انکے دکھوں انکے زخموں کا حساب۔ 57 مسلم ممالک دنیاکے نقشے پر موجود ہیں لیکن کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے صرف باتیں۔ انسانیت کی تاریخ میں آج کا دن احساس کی موت کا دن ہوگا اگر آج بھی آواز حلق میں دبی رہی ہاتھ آج بھی جیبوں میں قید رہے دل آج بھی اگر خون کے آنسو نہیں رویا تو سوچیں ضرور کہ ہم انسان ہیں؟؟؟ سوچییں ضرور کہ کیا ہم اس دین کے پیروکار ہیں جہاں ہر اینٹ ضمانت ہے دوسری اینٹ کی مضبوطی کی؟ دنیا میں ایک دین کے نام پر 57 ممالک سوائے احساس سے خالی لوگوں کے قبرستان کے کچھ نہیں رہیں گے۔ اگر اب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہندوستان پر دباو نہیں ڈالا جاتا کشمیر نہیں بچایا جاتا تو یاد رکھ

عید قرباں

آج عید قرباں ہے تو۔ چلو قربان کرتے ہیں۔ خود غرضی و خود پسندی کو۔ حقارت کو۔ کدورت کو۔ عداوت کو۔ نفرت کو جہالت کو۔             چلو قربان کرتے ہیں۔۔ ان ساری جفاوں کو۔ سارے بیوفاوں کو۔ کسی بھی رشتے میں حائل ان جھوٹی اناوں کو۔         چلو قربان کرتے ہیں۔ ان بدگمانیوں کو۔۔ ساری جھوٹی کہانیوں کو۔ کسی کے بدل جانے کی ان ساری نشانیوں کو۔             چلو قربان کرتے ہیں۔ اس فرقہ پرستی کو۔ کفر کی بالا دستی کو۔ بے گناہ کے خون سے سینچے جو۔ اس چمن کی ہستی کو۔            چلو قربان کرتے ہیں ہر بیکار عادت کو۔ ہر جعلی مسکراہٹ کو۔ دلوں کو دور جو لے جائے ہر اس حکایت کو۔          چلو قربان کرتے ہیں۔ اک اور قدم بڑھتے ہیں اپنے اصل کی جانب۔ خود سے روشناس کروائے جو۔ ہماری بگڑی بنائے جو۔ اللہ سے ہمیں ملائے جو۔ کوئی ایسا کام کرتے ہیں۔ اپنی ساری خوشیوں کو کشمیر کے نام کرتے ہیں۔          چلو قربان کرتے ہیں۔          چلو قربان کرتے ہیں۔(مصباح چوہدری)

گنہگار لوگ

پتہ نہیں لوگ گنہگاروں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ حتی کے گناہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔۔ کون سا پرہیز گار اپنی عزت نفس کو پامال کر سکتا؟ اپنے کردار کو لیر لیر کر سکتا؟ اپنے جسم کی بوٹی بوٹی کاٹ کتوں کے آگے ڈال سکتا؟ اپنی غیرت میں بےغیرتی کی کیلیں ٹھونک سکتا؟ اپنی محبت زمانے کی جونکوں کے سپرد کر کے نفرت کی آری سے خود کو کاٹ سکتا؟  کسی کے بستر پر اپنے کپڑے چھوڑنا صرف خود کو بےآبرو کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ آگ اور کانٹوں کے لباس سے زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔ نشے میں دھت دنیا و مافیا سے بے نیازی کسی عقل والے کے بس میں کہاں خود کو اشرف المخلوقات کے معیار سے گرانا کہاں کسی دانا کا کام نہیں ہے۔ یہ تو وہی لوگ کر سکتے جنکو یہ پرہیز گار اپنی پرہیزگاری کی بھینٹ چڑھا دیتے۔

سوچو کتنے عذاب ہوتے

ہماری آنکھوں میں تمھاری طرح گر محبتوں کے خواب ہوتے۔ تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔۔ جو ہم پہ گزری ہے بندہ پرور۔۔ تم کیوں سمجھو گے اے ستمگر۔ تمھاری محبت کے آسماں پر۔۔ رقیبوں کے جو مہتاب ہوتے۔۔ تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔ وہ ہم تھے کہ سمجھا ہر دکھ تمھارا۔۔ کندھے پہ جب کسی اور کو پکارا۔۔ ہمارے بالوں میں کسی اور گلشن کے۔ میری جان اگر کچھ گلاب ہوتے۔ تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔ وہ تمھارا راتوں میں اٹھ اٹھ کے رونا۔ تکیے کو کسی اور کے ہجر میں بھگونا۔ ہماری نیندوں میں جو میری جاناں۔ کسی اور کے خواب ہوتے۔ تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔۔ (مصباح چوہدری)

کشمیر کے نام

کبھی دیکھا ہے وہ گھونسلہ۔۔ جو بارش کی نظر ہو جائے۔ خوشیاں کا جو مسکن ہو۔ وہ ارمانوں کی قبر ہو جائے۔ وہ جہاں زندگی دن بھر بین کرتی ہو۔ راتوں کی خاموشی جہاں آہیں بھرتی ہو۔ جہاں پر چاند اور سورج بھی سیاہ چادر میں لپٹے ہوں۔ اور خوشیاں ماتمی لباس کی بکل میں پنہاں ہوں۔ جہاں پر پھول اپنی پنکھڑی سپرد خار کرتے ہوں۔ موت کو اپنے گلے کا ہار کرتے ہوں۔ اسی دشت کے صحرا کو بے نظیر کہتے ہیں۔ سنو اے منصفو صحیح سمجھے اسے کشمیر کہتے ہیں (مصباح چوہدری)

ماضی کے جھروکے

ماضی کے جھروکوں میں تانک جھانک۔۔۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب صبح تہجد میں ہوا کرتی تھی بڑی بیٹیاں اور مایئں نماز تہجد کو فرض سمجھتی تھیں تہجد کی ادایئگی کے بعد ماں قرآن کی تلاوت شروع کر دیتی جبکہ بیٹیاں مٹکوں سے دہی نکال کے چاٹیوں میں ڈالتی اور بچوں کا حصہ چھنوں کٹوروں میں بھر کے ٹوکروں تلے رکھا جاتا تھا اور کماوں پوتوں کو تبھی اٹھا دیا جاتا اور رات والی روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کر شکر کے ہمراہ دہی میں شامل کر کے دیا جاتا کہ وہ کھا کہ نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنے کاموں پہ جا سکے اور باق لوگ مدھانی کی آوازوں سے اٹھتے یہ جھرنے جیسی آواز کانوں میں رس گھولتی کہ صبح افسانوی سی ہو جاتی۔ تب ناشتے میں توی پہ بنی پھولی روٹیاں جنکو سینکنے پہ سینکا جاتا وہ بھی آرٹ تھا کہ آگ پہ سنکی روٹی کالی نہ ہونے پائے۔ اورپھر اسکو مکھن سے چوپڑا جاتا اور بچوں کو دہی میں مکھن ڈال کے دیا جاتا کہ انکی افزائش بہتر ہو تب جیم بریڈ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کسی کو کیلیریز کی فکر ہوتی لسی سپیشل چیز ہوتی۔ کولے میں لسی اور اس میں رکھی نمک کی ڈلی کہ اپنی مرضی سے نمکین کر لیں۔ تب لسی پینے سے جوڑوں میں درد نہیں ہوتا تھا۔ ان دنوں طا

نشے کی لت

کچھ باتیں کچھ سوچیں اور کچھ منظر بہت اذیت ناک ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی زندہ نعش کسی قبر کی اوٹ میں پڑی ہو۔ یا کہیں کوڑھے کے ڈھیر پہ یا پھر  کسی گندے بدبودار نالے کے کنارے۔ آجکل ایسے مناظر اکثر دیکھنے والوں کی روحوں کو تڑپاتے ہیں۔ بدقسمتی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ ایسے لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کی 7.6 ملین آبادی نشے کی لت میں مبتلا ہو کر اپنے اشرف ہونے کے شرف سے منحرف ہو رہی ہے جس میں % 78 مرد جبکہ %22  خواتین شامل ہیں۔ اور 40000 سالانہ انکی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں شرمناک حقیقت یہ ہے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جو ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔ افیون، آئس، چرس، سگریٹ، گٹکا اور دیگر اقسام کے استعمال کنندگان کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ خدا جانے معاشرے کے دباو کا پھندہ کبھی محرومی کے نام پر کبھی عیاشی کے نام پر اور کبھی غم غلط کرنے کے نام پر انکی گردن میں ایسا پھنسا ہے کہ اسم عظیم پیشانی میں رکھنے والے صبر صمیم کا بھار اٹھانے والے گلی گلی گھسیٹے جا رہے ہیں۔ دنیا و مافیا سے بے نیاز یہ لوگ معاشرے کا عضو معطل بنے ٹکے ٹکے کی عوض اپنی خلافت بیچ دیتے ہیں۔ نہیں خبر کہ

خدا دیکھا ہے

چھلکتا جام میں دیکھ کے حیراں ہو کیوں؟؟؟ میں نے طوائف کے گھنگھرو میں خدا دیکھا ہے مصباح

اپبے جسم کے ٹکڑے

۔۔۔ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻠﺒﮧ ﺑﯿﭽﺎ !!.... ﮨﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺑِﮑﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮯ ﮨﯽ ﮔﯿﺎ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﮐﮫ ﻟﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﯿﭽﻮﮞ گی جو کوئی ان کے خواب نہ توڑے کوئی جو انکو روتا نہ چھوڑے ہجر کے ککرے ان سے نکالے وصل کا سرمہ ان میں ڈالے آنکھیں اسکو میں بیچوں گی

لمحہ فکریہ

لمحہ فکریہ  چودہ سو سال پہلے موذن اسلام جب اذان کے لیے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتا توکائنات کی ہر چیز پر وجد طاری ہو جاتا۔ ہر شے بڑائی بیان کرتی اور اگر قدرت کا حکم رکنے کا نہ ہوتا تو ہر شے سجدے میں جھک کر اپنے خالق کے مالک ہونے کا اقرار کرتی۔۔ اور امام کے پیچھے فقط انسان ہی نماز ادا کرنے والے نہ ہوتے بلکہ چرند پرند درخت پہاڑ دریا سمندر غرض کائنات کا ذرہ ذرہ نماز کی ادایئگی میں ساتھ ہوتا۔۔ بدقسمتی کہیے یا ایمان کی کمزوری آج ہر محلے کیا ہر گلی میں مسجد ہے جہاں مولوی صاحب نہ صرف بڑائی بیان فرماتے ہیں بلکہ لمبے چوڑے خطبے سے اہل ایمان کے دلوں میں خوف خدا بیدار کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مگر خدا جانے کانوں پہ کونسے قفل پڑھے ہیں یا زبانیں لکنت سے ایسی خالی ہوئی ہیں کہ نماز جمعہ کے وقت بھی مساجد مومنوں کی جبین کو ترستی ہیں۔ ایمان کا ایسا قحط تو تب بھی نہ جب پیس ٹی وی مدنی چینل اور سوشل میڈیا پہ اسلام کی ایسی تبلیغ نہ تھی۔۔ آج تو ہر مرد مومن جمعہ کے دن خصوصی طور پر اپنے وٹس ایپ سٹیٹس ٹویٹر اکاونٹ فیس بک آئی ڈی یعنی ہر سوشل میڈیا چینل کو قرآنی آیات سے مزین کرتا۔ ٹی وی چینلز بھی جمعہ کی مناسبت

دیدہ حیرت کو بیچ آئے ہیں

اقبال دیکھ تیرے دیدہ حیرت کو بیچ آئے ہیں۔ تیرے شاہین تیری غیرت کو بیچ آئے ہیں۔ مے کشی و بےخودی و افلاس کا صدقہ۔ ہم بندہ مومن کی ہیبت کو بیچ آئے ہیں۔ کردار میں گفتار میں ہم گدھ صفت لوگ۔ شاہین اپنی پرواز کی دہشت کو بیچ آئے ہیں۔۔ مصباح چوہدری

ہوئی دکھاں والی اکھیر سائیں

ہوئ دکھاں والی آخیر سایئں میرا لو لو کردا اے پیڑ سایئں میرے بال بلکدے روٹی نوں ہوئی رزق وچ کیہڑی تاخیر سایئں۔ میرے صبر دے دیوے بجھ ونجھے۔۔ میرے نین وگیندے نیں نیر سایئں۔ میری غربت تے ہسدے جہان والے۔ اے انے کانے حقیر سایئں میری بوٹیاں نوچ گئے گدھ سارے۔ نہ جاگے ایہناں دے ضمیر سایئں۔ ہین لکھاں لکیراں ایس دنیا اچ نیئں قسمت جئی کوئی لکیر سایئں۔ میرے لیکھاں وچ جگراتا لکھ کےتے۔ پئی ستی اے میری تقدیر سائیں۔ مصباح چوہدری

اقبال تیرے شاہین

اقبال تیرے شاہینوں کی ہیں اونچی اڑانیں۔ سر اپنا جھکایئں نہ اپنی گردن یہ کٹا لیں۔ کردار و گفتار میں ہیں یہ اپنی مثال آپ۔۔ دشت و صحرا میں ہیں گونجی انکی آذانیں۔ عقاب سے بلند ہے ہرواز انکی آسماں میں۔ جنت سے جو نکلیں تو جہاں نیا بسا لیں۔۔ مصباح چوہدری

تیری چپ کے بیان ہونے تک

تمھاری چپ کے بیان ہونے تک۔ تمھیں ہم سے بدگمان ہونے تک  میری زندگی کی شام ہونے تک چلو اک کام کرتے ہیں محبتوں کے سبھی لمحے چاہت کی سبھی کلیاں یقیں کے سارے پھول جو عزت کے پنوں میں لپٹے ہوں اک دوجے کے نام کرتے ہیں کہ اگر بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کیوں نہ اے میرےہمدم جدائی کے اندھیروں کو  ملن کی روشنی سے تمام کرتے ہیں سنو! تمھارے بد گمان ہونے تک محبت تمام کرتے ہیں اپنی زندگیاں اک دوجے کے نام کرتے ہیں ✍مصباح چوہدری

محبت سر گریزاں ہو کر

اب کے بار چاہت سے گریزاں ہو کر۔ دل میں نفرت کو کیوں نہ جگہ دی جائے۔ کتنے دکھ ہیں جو احساس میں پنہاں ہیں۔ کیوں نہ اس احساس کو ہی آگ لگا دی جائے۔ کیوں نہ اب ہم بھی منافقت کا دامن تھامیں کیوں نہ اس بار انسانیت ہی جلا دی جائے کون لوگ ہیں جو محبت کے گن گاتے ہیں؟؟ ایسے احمقوں کی تو دیوار چنوا دی جائے۔ یہ جسم ہی شرط ہے ملاپ میں تو۔ کیوں نہ اس مٹی کی قبر بنا دی جائے؟ وہ جو کرتے ہیں پارسائی کا دعوی ہمدم ایسے عزت داروں کی عزت لٹا دی جائے سر جھکائے جو ضرورت کے قدموں کے سوا ایسے غدار کی تو گردن کٹوا دی جائے۔ مصباح بشیر چوہدری

اوہدی صورت ڈٹھی

اوہدی صورت ڈٹھی نہ کجھ ہو ڈٹھا میں ہاریا دل جہان اندر اوہ ہووے کول تے میں انج راہساں جیویں راہندھا اے تیر کمان اندر اوہ بولے تے میں انج سن ساں جیویں سنن دا حکم قرآن اندر اوہدے پیر ہوسن میرا سر ہوسی تے ہوسی جان میری اوہدی جان اندر اوہ لب کھلسن میڈا دل ہل سی عجب ہوسی کیفیت ہیجان اندر میں مک ویساں اوہ رہ جاہسن انج میں راہساں اس جہان اندر مصباح چوہدری

غریبی

اے تیز ہنیری غریبی دی سب رشتے اڑا کے لے جاندی بھکے پیٹ دس طبیبا وے نال سجنا گزارہ کون کرے؟ مصباح چوہدری

مجھکو جینا ہے ابھی مرنے تک

زندگی کی آخری آہ بھرنے تک مجھکو جینا ہے ابھی مرنے تک مصباح

لذت سجدہ بھی گئی

لذت سجدہ بھی گئی آداب قیام بھی گئے بات دنیا کی آئی تو اجزائے ایمان بھی گئے آیا غرور تو ہم نےجانا صفت آدم بھی گئی اندر کے انسان بھی گئے قلم ٹوٹے لفظ بکھرے حرمت جہد بھی تمام ہوئی اقبال و فیض کے بعد تو ہمارے شاعران بھی گئے نہ ولید ہے نہ قاسم اور نہ زین العابدین کی ردا دنیائے اسلام سے تو دین کے پاسبان بھی گئے موت برحق ہے آخر کو مرنا ہے ہمیں ہماری بے وفائی سے مگر کئی زندہ انسان بھی گئے  مصباح چوہدری😔

توں آ ہک واری شہر میرے

توں آ ہک واری شہر میرے  تیکوں دل وچ یار جگہ ڈیساں تیکوں لے ونجساں قلعہ دراوڑ  تیکوں نور محل وکھا ڈیساں  تیکوں غسل ڈیساں ددھ بکری نال  تے اونٹ دے ددھ دی چاہ ڈیساں ناچ مور ویکھی توں روہی دا تیکوں گھن میں بھیڑ تے گاں ڈیساں تیکوں پڑوپی ڈیساں بھنے دانیاں دی نالے شامیں چرخہ ڈا ڈیساں تیکوں گڑ ڈیساں نال مکھن وی تیکوں چوری یار بنا ڈیساں تیکوں ڈیں ڈکھیساں میں شہر سارا تیکوں راتیں جھومر کھڈا ڈیساں توں پھڑ تے سہی میرا ہتھ سانول میں صحرائی جھوک وسا ڈیساں توں آ ہک واری شہر میرے تیکوں نال تیرے ملوا ڈیساں توں آ ہک واری شہر میرے تیکوں روہی دا واسی بنا ڈیساں مصباح چوہدری

پارساوں کی محفل

پارساوں کی محفل میں سیاہکار کی مانند ہم رہتے ہیں انکے دل میں خطاکار کی مانند میری خاموشی کو دیتے ہیں انداز بیاں اور وہ جو رکھتے زبان منہ میں تلوار کی مانند مصباح

ٹھہری ہوئی لڑکی

میں محبتوں کے دیار میں ٹھہری ہوئی لڑکی وہ خواہشوں کے جال سے آگے نہ بڑھ سکا میری چاہت کے چاہے کوئی روح تلک مجھے وہ جسم کے جھنجھال سے آگے نہ بڑھ سکا مصباح

چولستان کی سیر

چولستان کا ماخذ ترکی زبان کا لفظ چول ہے جسکے معنی ہیں ریت۔ ریت کے اس سمندر میں کئی جزیرے بھی ہیں جنہیں مقامی زبان میں ٹبہ کہتے ہیں۔ انہی ٹبوں کی بھول بھلیاں میں اگر کہیں پانی مل جائے تو وہ جگہ سفید اور پختہ ہو جاتی ہے اور اسکے قرب و جوار کی زمین سبزے کی چادر اوڑھ لیتی ہے اسطرح یہ چھوٹا سا نخلستان انسانوں اور جانوروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہاں رہنے کی ایک ہی شرط صحرا نوردی کی باک خواہش ہے۔ عام لوگوں کو نظر آنے والی یہ انتہائی پرسرار زندگی روہی واسیوں سے باتیں کرتی ہے۔اس بیابان کے مکین اتنے مہمان نواز ہیں کہ 55 خشک ساون جھیلنے کے بعد بھی جس سے ملیں پہلے پانی کا پوچھتے ہیں انکا زریعہ معاش لائیو سٹاک ہے۔ انکی خاصیت ہے کہ صدیوں پہلے یہ لوگ من حیث القوم احساس کمتری اور احساس برتری سے دستبراد ہوچکے ہیں۔ یہاں میلوں تک اڑتی ریت اپنے اندر کئی تہذیبوں کو دفن کیے ہوئے ہے جن میں سر فہرست ہاکڑہ کی تہذیب ہے۔ دریائے ہاکڑہ کے کنارے بسا یہ بوند بوند پانی کو ترستا چولستان ماضی میں چھتنارے درختوں سے بھرا ہوتا تھا پانی کی لہریں کبھی قلعہ دراوڑ کی مضبوط دیواروں سے سر پٹخا کرتی تھیں یہاں چوکڑیاں بھرتے

دوستی کے نام

اسکو گمان تھا کہ میں نے اسکی عزت کو اچھالا ہے اسکے اپنوں میں اسکے سپنوں میں میں نے اسکو روندھ ڈالا ہے مجھے یہ دکھ کہ تھوڑا سا یقین تو مجھ پہ کیا ہوتا تھوڑا سا احترام تو مجھے بھی دیا ہوتا ہر بار کٹہرے میں کھڑا کر کے اس نے اے کاش میری دوستی کو پامال نہ کیا ہوتا میں جو اسکی غلطی بھی اپنے دامن میں بھر آئی تھی میری دوستی پہ اس نے کبھی مان تو کیا ہوتا چلو اب وہ خوش ہے اپنوں سے ملکر ساری برایئاں میرے حصے میں دیکر میں بھی ہوں  ہشاش بہت  اداس نہیں خوش باش بہت بس زرا کچھ کمی سی ہے میری آنکھوں میں رہتی نمی سی ہے مصباح

شام ہجر

شام ہجر بھی گئی صبح وصال بھی گئی تو جو گیا توفکر عیال بھی گئی ساقیا! دو گھونٹ کی مار تھا تیرا میخانہ مے نوش جو گئے جام کی چھلک چھال بھی گئی جب سے چھینی ہے محبت کی زبان ہم سے لفظ بھی گئے سارے، ساری سر تال بھی گئی تم کیوں روتے ہو فقط ڈوپٹے کو؟ یہاں تو بنت حوا کی چال ڈھال بھی گئی محبت باندھ کے بیٹھی ہے اپنا سازو سامان مہک گلوں سے چمن کی سرخ شال بھی گئی تیری ہیبت سے ڈرتے تھے سب جہاں والے غیرت مومن جو گئی تو حس کمال بھی گئی سلگتی پلکوں پہ نہیں خوابوں کا دھواں باقی رات گئی نیند گئی تو اذیت ملال بھی گئی مصباح چوہدری

غیرت مومن

غیرت مومن گئی قوت ایمان کے بعد خضوع گفتار بھی جا رہی تو پھر کیا ہوگا؟ شرم آنکھوں سے گئی اور ادب علم سے بوئے کردار بھی جا رہی تو پھر کیا ہوگا؟؟ قرات قرآن سے گئی اور ذوق سجدوں سے پہچان حرام بھی جا رہی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ ڈوپٹہ سرکنے پہ عرش بھی تو کانپا ہو گا حیا عورت سے جا رہی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ قلم سے لفظ گئے اور تلوار سے جرات قوم سوئے خار جا رہی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ درندگی میں ہم نے جنگل کو پیچھے چھوڑا ہے صفت مخلوق اشرفانہ جا رہی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ مصباح چوہدری

توڑ دے قفس آزاد ہو جا

تو توڑ دے قفس آذاد ہو جا میرے دل دا نگر ویران کر دے پر اک گزارش من میری۔۔ میرے وس وچ میری جان کردے میں ہنجواں وضو کروایا اکھیاں اک دیدار ایہناں دے نام کر دے بخت میرا وی جاگ جاوے کدے کوئی شام جے میرے نام کر دے مصباح چوہدری

خاس سے عام تک

Image
خاص سے عام تک کا سفر میں عورت ہوں جوماں بنے تو پیروں تلے جنت، بیٹی ہو تو جنت کی ضمانت، بہن ہو تو غیرت اور اگر بیوی ہو تو عزت ہوں، مگر آجکل میرے حالات کی وجہ سے کچھ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں وہ لوگ شاید میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں وہ نہیں جانتےکہ آدم کو کھنکھناتی مٹی سے تخلیق کیا گیا پھر اسکی جبین میں صفات خداوندی رکھیں اور اس پتلے کو علم کی دولت سے نوازہ گیا پھر اس صاحب علم سے مجھے پیدا کیا گیا اسکے دل کے نہایت  قریب سے۔ اسی قرب کا وسیلہ مجھے عشق ملا میں ہی تو مرد کے دل کی محافظ ہوں اور یہی وصف مجھے عاشق بناتا ہے دوسرے الفاظ میں میں پیدائشی عاشق ہوں کہتے ہیں کہ عاشق آذاد ہوتے ہیں لیکن بہت پہلے ہی میری مرضی میری منشا کو کچلا  جانے لگا اور مجھے کوئی اپنے مطابق چلانے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ تب کی بات ہے جب قابیل نے اپنی ہوس اور خواہش کی تکمیل کے لیے ہابیل کو قتل کیا اور مقصد میری ذات کا حصول بتایا جبکہ اس سب میں میری رضا شامل نہیں تھی تبھی سے انسانیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ کمزور جو کہ اولاد قابیل ہے اسکو میری ذات سے نہیں اپنے آپ سے غرض ہے جبکہ دوسرا اولاد شیث جسکے لیے میں بھی جیتی

دسمبر اب کے جو لوِٹا تو

دسمبر پھر سے جو لوٹا تو نئی خوشیاں بھی لائے گا یہی سمجھے تھے ہم دسمبر اب جب آئے گا نئی باتیں نئی یادیں نئے قصے رواں ہونگے ہزاروں پھول پھر دھند میں محبت کا نشاں ہونگے دسمبر اب کے جو آیا ہے مت پوچھو کیا لایا ہے وہی یادیں وہی باتیں انہی زخموں کا سایہ ہے نہ آنسو اب یہ تھمتے ہیں نہ سسکیاں ہی رکتی ہیں اس دل کے سرد خانے میں وہی یادیں سلگتی ہیں غموں کی دھند میں لپٹے کچھ شناسا سے چہرے ہیں وفا کے قبرستانوں میں وہی الفت کی لاشیں ہیں دسمبر اب کے جو آیا ہے مت پوچھو کیا لایا ہے😢 مصباح چوہدری

جھمکے

تم پہنا دو جو جھمکے کانوں میں حسن میرا تمام ہو جائے.. یہی حسرت ہے کہ تیری بانہوں میں میری زندگی کی شام ہو جائے .مصباح

رات کا پچھلا پہر

رات کا پچھلا پہر ہے ہر طرف خاموشی ہے یخ بستہ ہوا نے سردی کو مزید بڑھا دیا ہے اور دھند کی چادر نے ہر چیز کے نقش دھندلا دئیے ہیں.ایسے میں میں سوچ رہی تھی کہ ایک دھند تو یہ جو ہر شے پہ چھائی ہے مگر ایک دھند ہمارے اندر بھی ہے جو ہمارے اصل کو دھندلا رہی ہے جس نے ہمارے ہر روپ ہر چہرے کو اپنی آغوش مادر میں چھپا رکھا ہے. سو سال بھی جی لیں مگر اس دھند کی وجہ سے ہم خود کو پہچان ہی نہیں پاتے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم کون ہیں؟ کیوں ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟ ہماری تخلیق مٹی سے کیوں ہوئی جبکہ ہمیں تو خلیفہ بننا تھا پھر نور ہمارے حصے میں کیوں نہیں آیا؟؟ آخر ہمیں دوہرے عزاب میں مبتلا رکھنے کا سبب کیا تھا خیر اور شر دونوں ہم میں سمونے کی ضرورت کیا تھی؟ ہر وقت ایک دوڑ میں ہیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ریس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ریس ہر ایک کو جلدی ہے ہر ایک جیتنا چاہتا ہے مگر کوئی نہیں جانتا جیت کیا ہے؟ وہ منزل کونسی ہے جس کے لیے بھاگ رہے؟ ہمیں ماضی کیوں رلاتا ہے؟ ہمیں اگلی سانس کا نہیں پتہ تو پھر مستقبل محفوظ نہ ہونے کا خوف کیوں ہمیں حال میں رہنے نہیں دیتا؟؟ ہماری پیشانی کا اسم عظیم ہمیں دو ٹکے کا ہ

ہاتض تھامنے والے گر

ہاتھ تھامنے والے گر ہاتھ چھوڑ جایئں تو سسکیوں اور آہوں کی سوغات چھوڑ جایئں تو محبتیں لیکر نفرتوں کی خیرات چھوڑ جایئں تو وقت تھم نہیں جاتا انسان مر نہیں جاتا دھڑکنیں نہیں رکتیں زندگی تو چلتی ہے لوگ نئے ملتے ہیں محبتوں کے گلشن میں پھول پھر سے کھلتے ہیں سرد زرد لمحوں میں عمر کٹ ہی جاتی ہے مگر! کل اور آج کے رشتوں میں زیست بٹ سی جاتی ہے مصباح چوہدری

آپ سے توں تک...

"آپ" سے "تم" اور تم سے "توں" تک کا سفر بہت خوشیوں بھرا ہوتا اس لیے ان منازل کو طے کرتے انسان خوشی سے پھولا نہیں سماتا. ہر طرف بہاریں ہوتیں ہر رستہ پھولوں بھرا اور ہر سانس راحت بھری ہوتی. اپنائیت کے احساس میں ایک عجیب وارفتگی ہوتی ہے کہ یہ انسان کو اپنی آغوش میں یوں سمیٹ لیٹا کہ جون کی دھوپ ہو یا دسمبر کی دھند سب اچھے لگنے لگ جاتے ہیں. پھولوں کے ساتھ جڑے کانٹے اور انکا طواف کرنے والے بھنورے بھی محبت کے مرید لگنے لگتے ہیں.مگر جب کبھی واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے تو پتہ چلتا کہ"توں" سے "آپ" تک کا فاصلہ صدیوں کی مسافت بھرا ہے حوصلے ٹوٹتے ہیں بھروسہ بکھرتا ہے جزبات و احساسات کی کرچیاں روح کو گھائل کرتی ہیں.. انسان منہ کے بل گرتا ہے پھر اٹھتا اور پھر گرتا ہے.. اپنی میت اپنے کندھوں پہ اٹھائے کبھی تعلق اور کبھی رشتوں کی عدت کاٹتا ہے. آنسو بہتے ہیں مگر دل کا غبار کم نہیں ہوتا.. لاکھ سجدے کروڑوں منتیں بھی صبر کا ایک گھونٹ پلانے کے لیے ناکافی ہو جاتی ہیں. لفظ ماتم کرتے ہیں کہانیاں نوحے پڑتی ہیں. دیوانگی گھنگرو باندھے ساری رات وفا کے انگاروں پر محو ر

خود سے دور

میں جو اپنے اصل سے دور ہوئی چاہتی ہوں لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرور ہوئی چاہتی ہوں نفس کی آگ میں جلتے ہیں دن رات میرے میں اپنے آپ میں سنگچور ہوئی چاہتی ہوں نکال پھینکا جنت سے اور رولا خاک میں مجھکو  پھر وہیں جانے پہ میں مسحور ہوئی چاہتی ہوں خیر اور شر کی آبیاری میرے خون سے کی تیری دین پہ مولا میں مشکور ہوئی چاہتی ہوں مصباح

لفظوں کے جال

ہم جو لفظوں کے جال لکھتے ہیں لوگ انکو کمال لکھتے ہیں ہجرِ محبوب میں رونے والے ہر ملاقات کو وصال لکھتے ہیں جو عبادت سمجھتے محبت کو جسم کو اپنا زوال لکھتے ہیں رخ جاناں پہ مرنے والے ہمدم حسن کو عشقِ جمال لکھتے ہیں پہلے بناتے ہیں محبت کے محل پھر انکو وبال لکھتے ہیں مصباح

محبت کو جو وجداں جانتے ہیں

محبت کو جو وجداں جانتے ہیں ہم انہیں ....ناداں جانتے ہیں لاحاصل کی آرزو میں تڑپنے والے کہاں حاصل کا ضیاں جانتے ہیں جسم کےگرداب میں پھنسے لوگ کہاں روح کا فقداں جانتے ہیں ڈر کے سجدے خدا کو کرتے ہیں کہاں اسکو مہرباں جانتے ہیں ہم ضروت کے پلو سے بندھے حاجتمند کہاں مخلصی کی زباں جانتے ہیں مصباح چوہدری

صبح عشق دی شام ہوسی

تیری تانگھ وچ رلساں مر ونجھساں انج صبح عشق دی شام ہوسی مار ہجر جاسی میں مر ونجساں ناں موت دا ایویں بدنام  ہوسی مصباح چوہدری

کچھ لوگ

پتہ ہے کچھ لوگ ہماری زندگی کو بہت خوبصورت بناتے ہیں ان کے ساتھ گزرنے والا ہر لمحہ یاد گار ہوتاہے .آنکھیں ہر وقت انکے طواف میں رہتی ہیں اور انسان دل کے آنگن میں تصویر لگائے بڑی خاموشی سے انکو اپنی دھڑکنوں کے راستے اپنے خون میں اتارتا جاتا ہے ہر لمحہ ہر ساعت بس انہی کا ذکر انہی کا ساتھ چاہتا ہے... مگر پھر یوں بھی ہوتا ہے کے جن سے باتیں کرتے ہم تھکتے نہیں تھے انکے سلام کا جواب دینا بھی تھکاوٹ بھرا ہوجاتا. جنکے ساتھ ہر رستے پہ چلنے کی کبھی چاہ ہوتی تھی پھر انکے کہنے پر ہم انکے ساتھ ایک قدم نہیں چل پاتے. آنکھیں انہیں دیکھنا نہیں چاہتیں دل انکی پوجا سے انکاری ہو جاتا ہے. بڑا کٹھن ہوتا جب دل کسی کے ساتھ کی چاہ کرے مگر پھر دل ہی اسکی شکل تک دیکھنےکا روادار نہ ہو.. مگر ایسا ہوتا ہے جب کوئی ہمارے جزبات کی قدر نہ کرے ہماری دوستی کا مزاق اڑائے اور ہماری محبت منہ پہ دے مارے یا ہماری مخلصی کو اپنی انا و خود غرضی کی بھینِٹ چڑھا دے.. ایسے خالص جذبوں کی توہین اانسان کو ان سے محروم کر دیتی ہے اور جذبوں سے خالی لوگوں کی کہیں جگہ نہیں ہوتی نہ کسی کے دل میں نہ کسی کی یادوں میں اسلیے ایسے لوگوں کو ہم چھوڑ

ہم تھک جاتے ہیں

کبھی کبھی ہم تھک جاتے ہیں بھٹکتے ہوئے.. گناہ کر کر کے.. نفس پرستی سے.. پھر دل چاہتا ہے کہ اے اللہ توں سامنے ہو تیری بارگاہ میں بیٹھ جائیں تجھ سے سب کہہ دیں سب اچھا برا تیرے گوش گزار کر دیں.. اور تجھ سے لڑائی کریں اس سب کے لیے جو توں نے بن مانگے دیا اور اس سب کے لیے بھی جو توں نے مانگنے پہ نہیں دیا... جو توں نے دیا وہ تیری قدرت اور جو نہیں دیا وہ میری ضرورت اور تیری مصلحت.. دل کرتا ہے تجھ سے پوچھیں کہ میرے مالک توں حاکم ہے میرے سجدے تجھی کو جچتے ہیں دیکھ میں صابر ہوں میں شاکر بھی ہوں میری پیشانی میں اسم عظیم ہے اور پھر بھی میں تیرے سامنے سجدہ ریز ہوں تیری بڑائی تسلیم کرتی ہوں تو پھر توں نے وقت کے خدا کیوں بنائے؟؟ میں تھک گئی ہوں میرے مالک اپنی ضرورتوں کے قدموں پہ پیشانی دھر دھر کے اب بس.....  میری اوقات صرف یہی تو نہیں کہ میں ادنی ہوں.. میری اوقات تو یہ بھی ہے کہ میں تیری پہچان ہوں.. میری اوقات تو یہ بھی ہے کہ تیری خدائی اور تیرے محبوب کی بڑائی میری گواہی کی معترف ہے.... پھر میرے حصے میں بے بسی لکھ کے... مجھے نفس کے تابع کر کے.. مجھے مٹی میں مٹی کر کے توں کیوں مجھے میرے مقام سے گرا رہا

اک شخص

میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہے نام اسکا میرے خوابوں میری یادوں میں جو آتا ہے اک شخص دل چاہتا ہے چرا لوں اسکو اس سے میں میری نیندیں میری دھڑکن جو چراتا ہے اک شخص وہ ہمیشہ سے رہاہے میرے جذبوں کا محور میری سوچوں کو جو نیا رستہ دکھاتا ہے اک شخص میرے دل کی نگری میں تو غم کا اندھیرا تھا اپنے لہو سے دیپ جلاتا ہے اک شخص ایک آس سی ہے کہ وہ میرے سامنے آئے کبھی خیالوں میں جو اپنا چہرہ دکھاتا ہے اک شخص مصباح چوہدری My first writing

دل توڑنے والوں سے رب روٹھ جاتا ہے

سنا ہے دل توڑنے والوں سے رب   روٹھ  جاتا  ہے رب روٹھ جائے تو سب چھوٹ جاتا ہے پھر یقیں نہیں رہتا سچ جھوٹ جاتا ہے لفظ بکھر جاتے ہیں مصرعہ ٹوٹ جاتا ہے علم ہاتھ نہیں لگتا ادب روٹھ جاتا ہے زمیں مکاں نہیں بنتی فلک لوٹ جاتا ہے پھر بندہ بچ بھی جائے تو انسان ٹوٹ جاتا ہے .. نظم ادھوری رہ گئی😔...ادھورے لوگ ادھوری باتیں😒

چالیس سال کا بچہ

ہاتھ میں اوزار ہیں میرے چہرے سے تھوڑا زرد ہوں دس سال کی عمر میں میں چالیس سال کا مرد ہوں مصباح چوہدری

بھوک

چھواں رکن ایمان دا لاندھا سب دی بھک روٹی ٹک دے گھیڑےاندر بندہ جاندا اے مک مصباح

ڈر اور انسان

ڈر کہنے کو ایک لفظ ہے مگر حقیقت میں پوری زندگی.یہ دو طرح کا ہوتا مثبت ڈر اور منفی ڈر.. مثبت ڈر تعلق اور رشتوں کو مضبوط کرتا جبکہ منفی ڈر ہر رشتہ ہر تعلق کھا جاتا... ہماری زندگیوں میں منفی ڈر کا اثر نمایاں ہے انسانی زہن اور دل میں اسکا بیج اس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے بو دیا جاتا ہے. ماں کی کوکھ میں ڈر کی دہشت کئی بار ماں کے دل دھڑکن بڑھاتی ہے اور کئی بار بچے کے دل کی دھڑکن روک دیتی ہے. کبھی کوکھ میں پلنے والے کی صحت کا ڈر.. کبھی اسکی مطلوبہ صنف کا ڈر. کبھی اسکے نصیب کا ڈر اور کبھی اسکے کھانے پینے کا ڈر یہ سب ڈر پیدائش سے پہلے بچے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں... اور جیسے ہی وہ دنیا میں آتا ہے تو مزید ڈر کسی اژدھے کی مانند منہ کھولے بیٹھے ہوتے۔. ننھی سی جان دل میں دنیا کی خوبصورتی کی تمنا لیے ڈر کے پہلو میں ساری زندگی گزار دیتی ہے..ڈر کہ سیاہی زندگی کی کتاب کے ہر صفحے کو سیاہ کر دیتی ہے رشتے خوشیاں دکھ سکھ سبکا دم گھٹنے لگتا ہے مگر انسان کبھی کسی موڑ پہ اس چادر کی بکل سے باہر نہیں آ پاتا.... سب سے پہلا ڈر اس مالک کا پیدا کیا جاتا جس نے بہت محبت سے خلیفہ بنایا جھوٹ مت بولو اللہ منہ میں آگ

تمھیں ہم بھول جایئنگے

اس سال محبت کی ان اداس شاموں میں کسی انجان رستے پر کسی ویران گوشے میں ہم بیٹھ کر تنہا دھند کی چادر کو اوڑھیں گے ہوا کو دکھ سنائیں گے کسی شب کے اندھیروں اپنے آنسو چھپائیں گے مگر اتنا یاد رکھنا تم تمھیں ہم بھول جائیں گے تمھیں ہم بھول جایئں گے مصباح چوہدری

دسمبر

چلو میں مان لیتی ہوں کہ دسمبر ہی تو مجرم ہے اس یک لخت سے دو لخت کی غمگیں کہانی کا میدان کارزار میں لٹتی بھٹو کی جوانی کا چلو میں مان لیتی ہوں دسمبر ہی تو مجرم ہے ابھی اسکے کھاتے میں کئی سر بھی تو باقی ہیں جگر کٹ گئے جنکے وہ گھر بھی تو باقی ہیں چلو میں مان لیتی ہوں دسمبر ہوتو مجرم ہے مگر تم بھی مان جاو ناں. دسمبر اک مہینہ ہے کیلنڈر کے نگینوں میں یہ فقط اک نگینہ ہے اسے بدنام کیوں کر دیں؟ اپنی بے اعتنائی کا اپنی ساری خطاوں کا اسے الزام کیونکر دیں؟ خطا کے بیج بوئے تھے جفا کی فصل کاٹی ہے کہ ہم نے پت جھڑ کے موسم میں سزا بہت سخت کاٹی ہے مصباح چوہدری

میں انسان ہوں

میں مٹی کا ایک پتلا ہوں جس میں ایک بے چین روح ہے جو ہر وقت ماہی بے آب کی مانند تڑپ کر میرے انسان ہونے کا احساس دلاتی ہے. میں کیوں اور کب سے ہوں نہیں جانتی مگر میں جو ہوں اس میں اداکاری نہیں ہے ملاوٹ نہیں ہے.میں ناتواں ہوں مگر میری کمزوری ہی میری طاقت ہے وہی طاقت جو مجھے کھوکھلا کیے دیتی ہے. میں عاجزی میں اپنی مثال آپ ہوں مگر میری فرعونیت میری عاجزی نگل جاتی ہے.میں تضادات کا مجموعہ ہوں مجھ میں خیر کی جاگیر ہے تو شر کا کارواں بھی ہے.میں ایک ہی وقت میں فرشتے سے شیطان اور شیطان سے فرشتے کا سفر طے کرتی ہوں. میری چاہت مجھے آگے بڑھاتی ہے میرے قدم مضبوط کرتی ہے مگر میری سستی میری کاہلی میری کوشش پسپا کر دیتی ہے. میں احساس کے دھاگوں میں رشتے پرونے کے ہنر سے آشنا ہوں مگر میری بے حسی میرے رشتے کھا جاتی ہے. میں ظالم و مظلوم آقا و محکوم خودی و دیوانگی کے سارے جذبے سموئے کسی قوس قزح جیسی ہوں. جس میں مشرق و مغرب کی وسعتیں ہیں ساتوں سمندروں کا پانی میری دسترس میں ہے مگر اندر کا صحارا سیراب ہی نہیں ہو پاتا. میں دل کی زمین پہ احساس کے پھول کھلاتی ہوں اور پھر بے حسی کہ قینچی سے گلشن کو ویراں کیے دیتی ہو

کس منہ سے سالِ نو کی مبارک باد دوں تمکو

کس منہ سے تجھے سال نو کی مبارک دوں۔ کہ اس سالِ نو میں نیا کیا ہے؟ وہی ماہِ دسمبر کی دھند میں لپٹی ہوئی صبحیں وہی کہر  کی چادرمیں سمٹی  یخ بستہ سی شامیں ہیں وہی ویرانے پت جھڑ کے وہی ہنگامے دہشت کے وہی بے مروتی و بدگمانی کی چادر میں لپٹے کچھ شناسا سے رشتے ہیں وہی میں ہوں وہی تم ہو وہی رونا ہے غربت کا وہی مفلسی کی  بے ربط کہانی ہے کہ اس سالِ نو میں نیا کیا ہے؟؟ وہی پرانے قصے ہیں انہی امیروں کے قبضے میں خلقِ خدا کے حصے ہیں ابھی بے حسی او خود غرضی کا دورہ ہے ابھی سالِ نو کی مبارک رہنے دیتے ہیں فقط اک کام کرتے ہیں کہ, آس کے چند جگنو محبتوں کی وادی میں وفا کے گلشنوں میں امن کے نام کرتے ہیں چلو یہی اک کام کرتے ہیں ورنہ اس سالِ نو میں نیا کیا ہے؟؟؟؟ مصباح چوہدری

عورت کا روپ....طوائف قابل عزت قابل ستائش

ہاں میں طوائف ہوں! بظاہر میرے خدوخال عورت سے ملتے ہیں مگر میں اسکے جیسی نہیں ہوں. میرے اور اسکے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے وہ صدیوں سے مجھے اپنا دشمن مانتی ہے اسکو لگتا ہے میں اس سے اسکا شوہر بیٹا باپ چھین لیتی ہوں اسکے سر کا تاج میرے تلوے چاٹتا ہے  اسکے حصے کا رزق کاٹ کر میرے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے میرے ناز نخرے اٹھاتا ہے مجھے عیاشی کرواتا ہے. مگر وہ پاگل کب سمجھتی ہے کہ میں ہی تو ہوں جو اسکی عزت اور اسکا گھر محفوظ بناتی ہے اسکے شہر سے اگر میرا وجود نکال دیا جائے تو وہ جوبڑے اطمینان سے بڑے غرور کے ساتھ بازاروں میں دندناتی پھرتی ہے اسکا چلنا محال ہو جائے وہ عزت داری اور پارسائی جسکا اسکو مان ہے ایک لمحے میں خاک نشیں ہو جائے. وہ میری تربیت اور تہذیب پہ ہمیشہ انگلی اٹھاتی ہے کیونکہ شاید وہ تاریخ کے اس باب سے نابلد ہے جب شریف زادے ادب و آداب سیکھنے کے اپنے شہزادوں کو میرے کوٹھوں پہ بھیجا کرتے تھے. مگر میں اسکو جتلانا نہیں چاہتی. میں چاہتی ہوں اسکا بھرم قائم رہے. وہ مجھ سے نفرت کرے شدید نفرت. کیونکہ مجھ سے نفرت ہی اسکے رشتوں کو بچاتی ہےوہ میری نفرت میں اپنے مرد کی بیوفائی و بے حیائی د

16 دسمبر

وہ صبح عام صبحوں کی نسبت بہت اداس خاموش اور بے چین سی تھی مگر کوئی بھی اس اداسی اور بے چینی کا سبب نہیں جانتا تھا سکول میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز عام انداز میں ہوا ہی تھا کہ خدا جانے دھند کے پردوں کو چیرتا ہوا کربلا کا سورج کہاں سے نمودار ہو گیا اور پوری آب و تاب سے اے پی ایس پشاور پر چمکنے لگا. یکایک کئی دہشت گرد سکول کی دیواروں اور گیٹ کو پھلانگتے ہوئے سکول کے احاطے میں داخل ہوئے اور آتے ہی گولیوں کی برسات شروع کردی,  مشین گنوں کی آواز اور گولیوں کی بوچھاڑ سے کئی پھول سہم گئے اور کئی لرزتے تڑپتے زمین بوس ہو گئے ہر طرف کہرام مچ گیا اساتذہ اور بچے چیختےچلاتے پرنسپل آفس کی طرف  دوڑے مگر کبھی آفس تک نہ پہنچ پائے اور آن کی آن کھلونوں سے کھیلنے والے موت کے ہولناک کھیل میں زندگی کی بازی ہار گئے  وقت کے یزید کو ذرا ترس نہ آیا لیکن اسکو اندازہ ہو گیا کہ اسکی مشین گنیں ان علم کے متوالوں اور رکھوالوں کو زیر نہیں کر سکتیں تبھی ان نمرودوں نے پٹرول چھڑک کر پرنسپل, اساتذہ اور بچوں کو جلانا شروع کر دیا. انسانی نفرتوں کی یہ آگ کئی زندگیاں نگل گئی مگر درحقیقت یہ زندگیاں جلانے والوں کی تھیں جلنے والو

چائلڈ لیبر

Image
چائلڈ لیبر کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں سنہرے مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انکا آج سنوارہ جائے.مگر عصرِ حاضر کے شمارے دیکھ کر دل ہولنے لگتا ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں جہاں ہر کوئی ٹیکنالوجی کی نئی جہت روشناس کروانے کی کوشش میں ہے وہیں یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے سکول تک رسائی نہیں رکھتے جو کہ بچوں کی کل تعداد %44 ہیں اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ کہ ان میں سے 12.8 ملین بچے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مزدوروں کی صف میں کھڑے ہیں. انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق 2.7 ملین بچے ایسے ہیں جو کہ کھیتوں میں کام کرتے ہیں جبکہ باقی کارخانہ جات, ورکشاپ, ہوٹل, سینما گھروں, دکانوں, مویشی پالنے, مچھلیاں پکڑنے, بھٹہ مزدوری, کشیدہ کاری, تعمیرات, پیکنگ, کان کنی اور فٹبال سلائی وغیرہ جیسے کاموں سے منسلک ہیں.  بچوں کی مزدوری کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں مگر ان عمل درآمد مختلف وجوہات کی بنا پر ناگزیر ہو جاتا ہے. آرٹیکل 25 اے ریاست پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کو یقینی بنائے اسکے علاوہ پنجاب امتناع چائلڈ لیبر