محبت سر گریزاں ہو کر

اب کے بار چاہت سے گریزاں ہو کر۔
دل میں نفرت کو کیوں نہ جگہ دی جائے۔
کتنے دکھ ہیں جو احساس میں پنہاں ہیں۔
کیوں نہ اس احساس کو ہی آگ لگا دی جائے۔
کیوں نہ اب ہم بھی منافقت کا دامن تھامیں
کیوں نہ اس بار انسانیت ہی جلا دی جائے
کون لوگ ہیں جو محبت کے گن گاتے ہیں؟؟
ایسے احمقوں کی تو دیوار چنوا دی جائے۔
یہ جسم ہی شرط ہے ملاپ میں تو۔
کیوں نہ اس مٹی کی قبر بنا دی جائے؟
وہ جو کرتے ہیں پارسائی کا دعوی ہمدم
ایسے عزت داروں کی عزت لٹا دی جائے
سر جھکائے جو ضرورت کے قدموں کے سوا
ایسے غدار کی تو گردن کٹوا دی جائے۔
مصباح بشیر چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار