Posts

Showing posts from February, 2019

محبت

محبت کا شمار بھی ان نعمتوں میں ہوتا ہے جنکا احترام نہ کیا جائے تو وہ چھین لی جاتی ہیں۔

جھوٹا

وہ جو کہتا تھا تجھ سے بچھڑا تو مر جاونگا اب بھی زندہ ہے کسی اور پہ مرنے کے لیے 

نوجوان نسل کی کسمہ پرسی۔

 آج کی نسل کو لوگ مختلف القابات سے نوازتے ہیں ایسے القابات کہ جنکو سننے کے بعد قوت سماعت بھی گویا اپنے ہونے پہ ناداں ہو۔ کیا سچ میں یہ نسل آدم ثانی اتنی بری ہے؟ نہیں ہرگز نہیں یہ بیچاری تو قابل رحم ہے۔ وہ بچے جنکو مشینوں جیسے ماں باپ ملے جنکا کام بچوں کی پروڈکشن اور مختلف سطحوں پر انکی چند مادی ضروریات کی تکمیل کرنا ہے۔ ایسے بچے جنہیں دادی نانی کی کہانیوں کی جگہ بھیم پاپاءے دی سیلر مین اور سنڈریلا ملے۔ قدرتی غزائیت کی جگہ جنک فوڈ ملی۔ ماں سے بولنا سیکھنے کی عمر میں سکول ٹیچر سے بے بی بے بی یس ماما سیکھا۔ جنکو دین فرقوں کی کتابوں میں ملا۔ مذہب کے نام پر قدیم جدید مشرقی اور مغربی تہذیب کا ملغوبہ ملا۔ سیرت النبی کا نام سنا لیکن نبی کے عمل بس کتابوں میں مقید ملے جن پر ہر مکتب فکر کا عالم بحث کرتا ملا کہ میری کتاب سہی ہے میری کتاب مستند ہے۔ باقی سب غلط ہیں۔ قرآن میتوں اور کشادگی رزق کے لیے منعقد محافل میں نظر آیا۔ اور تو اور انکو جو خدا ملا وہ بھی بہت ظالم ملا۔جو جہنم دہکائے بیٹھا ہے۔ ایسا لگتا جنت یا تو پہلے بھر لی یا پھر کسی کو کرائے پر دے رکھی اب بس جہنم ہے جسکو اس نسل سے بھرنا ہے۔ اتنا

شاہکار

یہ جو فتوی کفر لگانے پہ تلے ہیں مجھ پر۔۔۔ باخدا میرے ہاتھوں کا شاہکار ہیں سارے۔ (

رشتے

دکھ کی گھڑیوں میں جب سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت ہو اور وہ میسر نہ ہوں تو تکلیف کم ہونے کے ساتھ ساتھ رشتوں کی مضبوطی بھی کم ہونے لگتی اور آخر کار رشتے بس نام کے رہ جاتے احساس ختم ہو جاتا۔

بیوفا

Image
میں سمجھ نہیں پائی اسکی بے باک محبت کو۔ وہ میرا تھا تو پھر کسی اور کا کیسے ہوا؟؟

لازم ملزوم

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اسکو دو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور نام مرد اور عورت رکھا۔ دونوں میں کچھ خصوصیات یکساں جبکہ بہت ساری مختلف ہیں۔ عورت کو جسمانی لحاظ سے کمزور رکھ کر اسکی خوبصورتی۔ نزاکت اور اسکے احساسات و جذبات کو طوالت بخشی۔ کائنات کے سارے رنگ اس میں مزئین کر کے مرد کو اسکی حفاظت اور کفالت کے لیے مقرر فرمایا۔ مرد کو جسمانی اور جذباتی لحاظ سے مضبوط بنایا تا کہ عورت نامی  تحفے کے لیے ضروریات و آسائشات کی تکمیل کر سکے۔ اسکے رنگوں  کو مزید نکھار کے اپنی زندگی خوبصورت بنا سکے۔ لیکن بدقسمتی کے وقت گزرنے کے ساتھ پتہ ہی نہیں چلا کہ ابن آدم اور بنت حوا کو یہ گمان ہونے لگا۔کہ چونکہ انکے ظاہری خدوخال ملتے جلتے ہیں لہذا ان میں کوئی فرق نہیں۔  عورت ہر وہ کام کر سکتی جو مرد کرتا۔ اور مرد ہر وہ کام کر سکتا جو عورت کرتی۔ چنانچہ ایک نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ دونوں کسی حد تک ان کاموں سے کنارہ کشی کرنے لگے جو قدرت نے انکو سونپے تھے۔ وہ مرد جو عورت کی حفاظت پر معمور تھا اب میدان جنگ میں اسی کے مد مقابل ہے۔ ڈوپٹے اوڑھانے والا عزتوں کا رکھوالا کب نقعب لگانے لگا چادریں ک

سکھر کے لوگ

انسان کا اس زمین سے بہت گہرا رشتہ ہوتا جس میں وہ رہتا۔ میں نے سنا تھا پہاڑوں میں بسنے والوں کے دل بھی پتھر جیسے ہوتے بظاہر بہت مضبوط لیکن  سنگ تراش کی محنت اور لگن انہیں فن پاروں میں بدل دیتی۔ یہاں سکھر آ کے مجھے ان لوگوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہوا ۔ یہاں کا خوبصورت دریاے سندھ اور اس سے نکلتی نہریں میرے ذہن میں لوگوں کی جو تصویر بنا رہیں تھیں وہ بہت خوبصورت تھی قدرت نے روشنی کے ساتوں رنگ سمیٹ کر جاقوس قزح میرے اندر بکھیری تھی وہ یہاں کے لوگوں سے ملنے ان سے بات کرنے اور بغور دیکھنے کے بعد تتلی کے کچے رنگوں کے جیسے اڑ گئ۔ وہ بے مقصد بے سروپا الفاظ ضائع نہیں کرتے۔ لیکن جب بولتے تو تلخی جھلکتی۔ ایک بیچارگی عیاں ہوتی۔  جیسے کسی مایوس انسان کی ساری امیدیں دم توڑ جائیں اور تقدیر و تدبیر کے سارے دروازوں کو بند کا کر وہ خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے۔ لیکن ویرانی اس کے اندر گھر کر لے۔  جیسے کسی امر بیل نے اس کے حالات و خیالات کو جکڑ لیا ہو۔ یہ لوگ ماڈرن زندگی کے تمام رنگوں کو اپنا رہے ہیں۔ لیکن میوزیم میں رکھے کسی مجسمے کی طرح جسکی تزئین و آرائش پہ جتنا بھی خرچ کر لیں ۔ اس پر جمے قدیمیت

ہاتھ کی لکیریں

دست شناس نے کہا۔ ہاتھ کی لکیروں میں نام نہیں ہے آپ کا ہم نے سوچ لیا کے اب ایسی چال چلتے ہیں لکیریں ہی بدلتے ہیں پھر قسمت آزمائیں گے تم سے ہم مل جائیں گے لکیروں کے بدلنے میں ہاتھ ہم نے کاٹ ڈالے تم کو اپنانے کے آلات ہم نے کاٹ ڈالے پھر خیال آیا کہ۔ لکیروں کے بدلنے سے مقدر تو نہیں بدلتا ہاں ہاتھ کو اٹھانے سے آنسو چند بہانے سے تو مل تو سکتا تھا دل کھل تو سکتا تھا اب کیا کریں جب کہ  ھاتھ ہی نہیں باقی ساتھ بھی نہیں باقی میری جسم میں جاناں میری زات بھی نہیں باقی) ی)

انسان

انسان کی بڑی خرابیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے نفس کو اپنے خون سے سینچتا ہے۔ اس کی خواہشات کی تکمیل کےلیے آسمان کی بلندیوں سے فرش کی پستیوں میں گر جاتا اور تو اورجنت جیسی نعمت بھی گنوا دیتا۔ لیکن منافق اتنا کہ دوسروں کے سامنے ہمیشہ خود کونیک اور پرہیزگار ظاہر کرتا کہ جیسے کسی مرد مومن کیطرح اسکا نفس کب کا زیر ہو چکا۔۔ پتہ نہیں انسان ایسا کیوں کرتا۔ حتی کہ سب جانتے ہیں انسان خیر اور شر کا مجموعہ ہے۔ اسکے دل میں جہاں اللہ رہتا وہیں کہیں آس پاس شیطان کا بھی ڈیرہ ہے۔ اگر سچ میں نفس زیر ہو جائے پھر تو کسی جنت کی ضرورت نہ رہے اور جہنم اپنی آگ میں خود ہی جل جائے۔

عشق اور دنیا داری

Image
عشق ہے تو پھر گھنگرو باندھ ۔۔ اتنی دنیا داری کیوں؟؟؟؟  اندر تو نے کفر ہے پالا ۔۔ زبان سے ورد ہے جاری کیوں؟