Posts

Showing posts from April, 2020

سب بکتا ہے

سب بکتا ہے. کبھی کبھی لگتا ہے یہ دنیا جس میں انسان اشرف المخلوقات کے منسب پہ فائز بیٹھا ہے رہنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ ایک وسیع و عریض منڈی ہے جہاں علم, مذہب, احساس, طریقت, عقیدت, محبت, نفرت, کرادار, اقتدار, انسان یہاں تک کے وجدان بھی بکتا ہے. جس طرف نظر دوڑاو کسی نہ کسی شے کی بولی لگی ہوتی ہے. بزرگان دین کے مزارات پہ جاو تو لواحقین مزار میں لیٹے بابا جی کا نام بیچ بیچ اپنا گھر و پیٹ کا دوزخ بھر رہے ہوتے ہیں. اور قبر میں لیٹے بابا جی بیچارے خدا معلوم اپنی تجارت دیکھ کس کرب میں مبتلا ہونگے؟. علماء کرام جنکو دین کے پلر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا مختلف کمیٹیوں مدرسوں اور اپنی رائے کا سودا کرتے نظر آتے ہیں. کبھی سوچا ہے مدرسوں کے نام پہ ان ممالک سے بھی عطیات لیے جاتے جنکو اسلام کے الف کا بھی نہیں پتہ ہوتا. اور پھر وہاں سے جو اللہ کو مانتے ہیں. بڑی خندہ پیشانی سے اللہ کا نام اسلام کی تعلیمات کو خوبصورت رومالوں میں لپیٹ کر ایسے انکا سودا کیا جاتا کے عقل حیران ہو جاتی ہے. خوفِ خدا کا ڈنکا بجا کر لوگوں کو ڈرا کر اور پیسوں کے عوض اس خوف سے نجات دلانے کا کاروبار اتنے احسن طریقے سے کیا جاتا کہ بکن

کبھی وقت کی تلوار پر

کبھی کبھی یونہی دل چاہتا ہے کہ میں لفظ لفظ بیاں کروں  تجھے رفتہ رفتہ عیاں کروں  تیرے درد سارے سمیٹ کے تجھے محبتوں کی زباں کروں مصباح

محمد

جب میں محمد کا نام لکھتی ہوں رحمتوں کا اک پیام لکھتی ہوں فرشتے اترتے ہیں زیارت کو میری جب میں درود و سلام لکھتی ہوں ✍🏻مصباح چوہدری

دل چاہتا ہے

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے لفظوں کے گلے کاٹ دیئے جائیں یا پھر انکی آواز چھین لی جائے اور خاموش لفظوں میں ایک طویل کہانی لکھی جائے جسے اندھے دیر تک پڑھتے رہیں. بہرے مدتوں سنتے رہیں اور گنگے صدیوں اس پہ بحث کرتے رہیں. ✍🏻مصباح چوہدری

I am a d-girl

I am a D-girl کچھ دن پہلے یوٹیوب پہ Chika Okoro کا ایک کلپ میری نظر سے گزرا. ایک افریکن امریکن لڑکی ایک خوبصورت انداز بیان. لفظوں کا سحر ایسا کہ اب تک کئی بار اسکی ویڈیو دیکھ چکی ہوں سن چکی ہوں مگر ہر بار دل کے پہلے سے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے. کئی بار سوچا کہ میں کونسی قسم کی لڑکی ہوں؟ آپ بھی سوچیں اور بتائیں کہ آپ کس کیٹیگری میں آتی ہیں؟ پہلی قسم ایسی لڑکیوں کی ہے جن کے رنگ گورے, غزالی آنکھیں, ستواں ناک. سیدھے لمبے گھنے بال (hottest of the hottest) جبکہ دوسری کیٹیگری میں B-girls یعنی ایسی لڑکیاں ہیں جنکی رنگت گوری, موٹی آنکھیں ناک باریک, دراز قد اورجسم سیکسی ہو. کیا آپ بھی اس کیٹیگری میں فال کرتی ہیں؟ پھر آتی ہیں c-girls . جو بال لمبے کرنے کو ایکسٹینشن استعمال کرتی ہیں. رنگت بھوری سے سفید کے درمیان. نین نقش بس واجبی سے. مگر کریموں کے استعمال سے گوری ہو سکتی ہیں اور کنٹورنگ کے عمل سے ناک منہ کی موٹائی میں فرق ڈالنے کے ہنر سے آشنا. کیا آپ بھی سی گرل ہیں؟ اور آخر پہ باری آتی ہے d-girls کی. موٹی ناک, کالا رنگ, فربہ جسم, گھاس جیسے بال اور قدو قامت میں بھی سطحی. یہ کچھ درجات ہیں جنکو

حضرتِ انسان

گداگر سے لیکر بادشاہ تک, خرابات سے لیکر خانقاہ تک, دنیا کے ہر سر اور ہر در پر موت کا خونی گدھ منڈلا رہا ہے. ہر طرف نفسا نفسی ہے خود کو بچانے کی تگ و دو میں ہر ذی روح ایک محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہے. ہر شہر ہر گلی میں ہُو کا عالم ہے. ہر کوئی خود کو چھپانا چاہتا ہے کہ باہر موت کی دیوی کا پہرہ ہے.ایسا لگتا ہے کہ آجکل اس دیوی کا شکار صرف اشرف المخلوقات ہی ہے. ہر سو بے چینی و  بے سکونی ہے. انسان جو نفس مطمعنہ کا طلبگار ہے تسکینِ خاطر پہ اپنی جان تک دے دیتا ہے. اسکے لیے یہ سب لاحاصل ہے. وہ سکون کی اس دولت سے محروم ہوتا جا رہا ہے. حضرت انسان اتنا بے بس و مجبور ہے کہ اس کے پاس دعوی کرنے کو کچھ بھی نہیں. نہ اسکے جسم پہ اسکی مرضی نہ اسکی جان پہ اسکی مرضی. ایسی زندگی کس کام کی ہے کہ جسکے ایک سیکنڈ کے کڑوڑویں حصے میں بھی اطمینان نہیں. ہر وقت موت کا خوف ایک ایک سانس اذیت سے بھر دیتا ہے. ایک ایک دھڑکن موت کا نگارہ بجاتی محسوس ہوتی ہے. کیا اب بھی ہمیں سمجھ نہیں ہے کہ سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے. زندگی جسکو ہم اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں یہ اللہ کی دین ہے اسکے حکم سے کسی وقت بھی واپس لی جا

ہم تھک جاتے ہیں

اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہے. ساری کوششیں سارا وقت ضائع ہو جاتا ہے. جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہی غلط جاتا ہے.غرض آگے بڑھنے کی ہر کوشش منہ کے بل گرا دیتی ہے. ایسے میں ہم تھک جاتے ہیں مان لیتے ہیں کہ ہم سے کچھ نہ ہو گا. اللہ سے گلے بڑھ جاتے ہیں. لوگوں سے رویے بدل جاتے ہیں. خود سے بیزار ہونے لگتے ہیں. دل چاہتا ہے ہر چیز توڑ پھینکیں اور مان لیں کہ ہم جاہل بیوقوف اور  منحوس ہیں جن کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں. اپنا وجود بوجھ لگنے لگ جاتا ہے. ایسا لگتا ہے ہم مس فٹ ہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں میں. مگر  پھر خیال آتا ہے کہ بے مقصد کچھ نہیں ہوتا. اندر سے صدا آتی ہے کہ ہم کہیں غلط تھے. کہیں کوشش میں کمی تھی اور کہیں راستہ غلط چنا تھا.. امید کی ہلکی سی روشنی چمکتی ہے اور جو اسکو پہچان لیتا ہے وہی منزل کو پالیتا ہے. اسی کو گر کے سنبھلنے کی طاقت ملتی ہے. پھر قدم نہیں ڈگمگاتے منزل دھندلی نہیں رہتی. انسان پھر سے گرتا نہیں ہے. اللہ سے گلہ نہیں کرتا.بس محبت کرتا ہے محبت بانٹتا ہے. ✍🏻مصباح چوہدری

محبتوں کا آسیب

دنیا میں سب سے بھاری بوجھ محبتوں کا ہوتا ہے. جسکو اٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی. بہت سے خواب بہت سی خواہشیں اسکے نیچے دب کے دم توڑ جاتی ہیں. انسان لمحہ لمحہ ٹوٹتا ہے بکھرتا ہے اور پھر خود ہی خود سمٹتا ہے. عجیب ہے ناں لوگ محبت کو زندگی سمجھتے ہیں مگر حقیقت میں یہ موت ہے اپنے آپ کی موت اپنی خواہش اپنی چاہ اپنی انا کی موت. انسان تھک جاتا ہے روز روز مرنے سے. اپنی سانس جب کسی اور کی آکسیجن سے جڑ جاتی ہے اور اپنے دل کی دھڑکن کسی اور کے دل سے تو بےبسی یوں گھنگھرو باندھ دھڑکنوں کے شور پہ رقص کرتی ہے جیسے کوئی وارث کسی بھاگ بھری کے لیے انگاروں پہ زندگی کی جنگ لڑ رہا ہو بلھا ننگے پاوں کسی عنایت کی عنایت کے لیے ناچ رہا ہو. یا کوئی سسی کسی پنوں کے لیے تھلوں کی تپتی ریت میں رُل رہی ہو.پھر اپنا آپ اجڑے دیار سا لگتا ہے.جہاں محبتوں اور عقیدتوں کا آسیب ہو ایسا آسیب کہ جس میں آپ کا اپنا جسم خود اپنے لیے سرائے ہو. وہ سرائے جہاں رکا تو جا سکتا ہے مگر رہا نہیں جا سکتا....... مصباح چوہدری

عہد وفا کے دن ہیں

میں نے مانا کہ وبا کے دن ہیں مگر یہ نئے عہد وفا کے دن ہیں موت کا خوف محبتوں پہ بھاری ہے ہائے یہ کیسے جفا کے دن ہیں وہ جو مرتے تھے قرب جاناں پہ اب کے بچتے ہیں بچا کے دن ہیں تھاما ہاتھ تھام کے چھوڑ دیا دی ہے تمہید فاصلہ کے دن ہیں امیر مقید ہے اپنے محل کے زینوں میں غریب کے لیے یہ کرب و بلا کے دن ہیں سانس بھاری ہے جسم چور ہے شدتِ درد سے زمین پہ کیسے یہ خلا کے دن ہیں میرے مولا! تیرا ہی آسرا ٹھہرا  ہم فقیروں کو دے جو عطا کے دن ہیں. مصباح چوہدری