Posts

Showing posts from February, 2020

کرونا..اور ہم

کچھ چیزیں کچھ حادثات ہماری زندگیوں میں ایسے ہوتے ہیں جنکی بدولت ہم اپنوں میں چھپے غیروں کو پہچان پاتے ہیں. کل ایک ایسا ہی واقع میرے شہر میں ہوا. ایک لڑکی جو کہ چائنا میں زیر تعلیم تھی پہلے اسکو حکومت پہ دباو ڈال کہ وطن واپس بلایا گیا. کہ ہماری بیٹی دیارِ غیر میں اکیلی ہے. سکریننگ میں کلیئر قرار دینے کے بعد گھر روانہ کیا گیا اور کہا گیا کہ جیسے ہی آپ میں کوئی علامات ظاہر ہوں آپ ڈی ایچ کیو پاکپتن وزٹ کریں کل دس دن بعد اسکو فلیو اور کھانسی وغیرہ کی شکایت ہوئی گھر والوں کو لگا کہ کرونا وائرس ہے اسپتال جانے پہ کوئی لڑکی کے قریب نہیں جا رہا تھا نہ کسی کو جانے دیا جا رہا تھا. ہمارے ڈی ایچ کیوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا پوزیٹو کردار ادا کیا اور کہا کرونا ہے بس پھر کیا تھا گھر والے بھی علیحدہ. یہاں قابل ذکر امر یہ ہے ڈی ایچ کیو میں سکریننگ کی سہولت موجونہیں  ہے. خیر اب لاہور لے جانے کی باری تھی اور حیرت کی بات یہ کہ ساتھ بیٹھنے کو کوئی تیار نہیں تھا. ریسکیو کے جوان اپنی سپیشل کٹ کے ساتھ اکیلی لڑکی کو لیکر لاہور روانہ ہوئے. تب تک اس لڑکی کی تصاویر لیک کر دی جا چکی تھی اور عملہ اسکو مان بھی رہا تھا ک

واپسی کا سفر

کہتے ہیں کہ واپسی آسان نہیں ہوتی پھر چاہے کسی کے دل سے ہو گھر سے یا پھر رشتے سے.. مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہر بار واپسی کا واستہ کٹھن نہیں ہوتا..کبھی کبھار واپسی آگے بڑھنے کی نسبت زیادہ آسان اور خوشگوار ہوتی ہے.. بس اسکا انحصار تعلق یا رشتے کی نوعیت پہ ہوتا ہے یا پیچھے منتظر لوگوں کے خلوص اور محبتوں پہ. پیچھے موجود لوگوں کی چاہتیں پر خلوص ہوں تو لوٹنے والے کا سفر اذیت کے آنسو کے ساتھ ساتھ امید کی کرن ثابت ہوتا ہے جو غم اور مایوسی کے اندھیروں میں رہبر منزل ثابت ہوتی ہے..وہ رشتہ جس میں ہماری محبتوں اور عقیدتوں کا فقط استعمال کیا جائے درحقیقت ہمارے جذبات کی توہین ہوتا ہے ایسے رشتے جہاں ہماری چاہت ہمارا خلوص صرف دوسروں کی وقتی ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ وہاں وفائیں خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں..ایسے رشتوں اور دلوں سے واپسی کا دکھ بھی وقتی ہوتا. اور پھر پوری عمر بندہ اس محبت چاہت یا انسیت کو اپنی بیوقوفی کا نام دے کر مسکراتا رہتا...  ✍🏻مصباح چوہدری

ہم تھک ہی جاتے ہیں

کبھی کبھی ہم تھک جاتے ہیں ہمارے کندھے کسی نہ نظر آنیوالے بوجھ سے جھک جاتے ہیں حتی کہ ہم نے کوئی جسمانی مشقت نہیں کی ہوتی ایسے میں ہر آواز شور لگتی ہے اور ہر ملنے والا غیر.. یہاں تک کے اپنا آپ بوجھ لگنے لگتا ہے..ایسا لگتا ہے کہ ہم سے بدقسمت دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی اور لوگوں کے چہروں پہ منافقت کے بورڈ دکھائی دینے لگتے ہیں. جی چاہتا ہے کہ خود کو کسی اندھیر نگری میں بند کر لیا جائے جہاں نہ کسی کی آواز ہو نہ کسی کا ساتھ.... لوگ ایسے میں ہمیں بہت سے القابات سے نوازنے لگتے ہیں مغرور بگڑا ہوا بدتمیز جیسے خطاب ملنا تو روز کی بات ہو جاتی ہے.. مگر کوئی اندر نہیں جھانکتا کہ تھکن کس چیز کی ہے؟ یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ تھکن ان رشتوں کی ہوتی ہے جنکے ہم محض استعمال کی چیز تھے کبھی ہمارے کندھے ان امیدوں کے بوجھ سے بھی جھک جاتے ہیں جو ہم نے اپنوں سے دوستوں سے باندھی ہوتی ہیں ہماری زبان کی تلخی ان میٹھے بولوں کی دین بھی ہوتی ہے جنکی ہم نے ان اپنوں سے توقع کی ہوتی ہے اور یہ بیزاری کسی کے ساتھ چھوڑنے کی بھی ہوتی ہے. کبھی سوچا ہے کسی کی زندگی کے کسی حسین لمحے کو یادگار بنانے کے لیے

لومڑیاں

لومڑیاں  قدرت نے عورت کا ہر روپ ہر رشتہ بہت خوبصورت اور قابلِ ستائش بنایا ہے وہ ماں بنی تو قدموں تلے جنت بچھا دی بیٹی بنی تو جہنم سے ڈھال اور جنت کا پروانہ بن گئی بہن بنی تو بھائیوں کی غیرت بن گئی اور جب بیوی بنی تو عزت کی چادر میں لپٹی شریکِ حیات. یوں تو یہ روپ عورت کے لیے کافی ہونے چاہیں تھے مگر خدا معلوم اس میں بغاوت کہاں سے آگئی اس نے ایک اور روپ دھار لیا لومڑی کا روپ. اور پھر ہر جگہ یہ لومڑیاں نظر آنے لگیں عام ہونے لگیں. یہ لومڑیاں اکثر مرض الحرص میں مبتلا ہوتی ہیں کبھی دولت کی حرص, کبھی خوبصورتی کی, کبھی نفسانی خواہشات کی, کبھی فیشن اور کبھی دوسروں کی خوشیوں کہ حرص..اپنے لالچ و حرص کی تکمیل کے لیے یہ ہر حد تک گر سکتی ہیں انکے لیے ہر انگور میٹھا ہوتا ہے. ان لومڑیوں کی شہر کے ہر بیوٹی پارلر تک رسائی ہوتی ہے انکے پاس ہر رنگ کی لپسٹک.نیل پینٹ اور جوڑے ہوتے ہیں انکی نقلی پلکیں اور کئی کئی ہیئر پیس مردوں کو لبھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں. اور انکا ٹارگٹ ہوتے ہیں وہ بیوقوف مرد جو اپنے وقتی سکون و عیاشی کے لیے اپنی دولت , عزت, جزبات اور محبت سب نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں. اور انکے مق

فیسبک

فیس بک یوں تو فیس بک سے میرا تعلق کئی سال پرانا ہے مگر پچھلے کچھ عرصے سے لگتا یہ تعلق ایک رشتے میں بندھتا جا رہا..ایک انتہائی اچھا اور سستا میڈیم جس سےہم نہ صرف اپنی آواز لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ دنیا میں ہونے والی سیاسی سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہوئے چٹ پٹے تبصرے اور سنجیدہ گفتگو کے مزے بھی لے سکتے ہیں.. جہاں اتنا کچھ اچھا اس سوشل میڈیا ایپ کے ساتھ جڑا ہے وہیں بہت کچھ برا بھی اس کے کھاتے میں ہے. جن میں سر فہرست لوگوں کی کردار کشی کرنا ان پہ کیچڑ اچھالنا اور کسی کی پرسنل زندگی کو سب کے سامنے موضوع بحث لانا بھی شامل ہے. اس کے ساتھ جعلی خبریں پھر بھلے وہ کسی کی موت کی ہوں یا طلاق کی پھیلانے کے لیے بھی فیس بک بیسٹ ہے. کیونکہ یہ سوشل میڈیا چینل پوری دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے تو لوگ سب سے زیاد مس یوز بھی اسی کا کرتے ہیں. عجیب بات ہے کہ اسلحے کی نمائش ہو یا جسم کی, جذبات کی اشتہا بڑھانی ہو یا جسم کی بھوک مٹانا ہو سب کچھ اس ایپ پر دستیاب ہے ہر طرح کی ویڈیوز, پیجز اور گروپس مل جاتے ہیں. اور  یہاں بہت مزے کے لوگ بھی ملتے ہیں جیسا کہ ماں کا شیر خان یہاں مانو بلی مل

فرینڈ ریکویسٹ

فرینڈ ریکویسٹ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ سب دوست بیٹھے فیسبک پر موجود لڑکیوں کی آئی ڈیز پہ تبصرے کر رہے تھے وہ مسلسل بول تھا یا زرمینہ کی آئی ڈی دیکھی اف کیا پوپٹ بچی ہے تیرا بھائی تو دیکھتے ہی دیوانہ ہو گیا اسکا اور ثمنہ کیا پوز مارتی ہے ایسا لگتا جیسے کوئی ماڈل ہو. میں نے بھی سب کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی ہے مگر سالی حرامزادیوں نے ابھی تک قبول نہیں کی اتنی دیر میں عمران بھی آگیا سب نے دیر سے آنے پہ لعن طعن کی. تو عمران دھیرے سے بولا یارا ڈیٹ پہ گیا تھا.. سب کے منہ کھلے کے کھلے اور تجسس میں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیئں. ابے سالو وہ میری فیسبک فرینڈ ہے ناں شیلی اسکے ساتھ گیا تھا کیا مست چیز ہے میری تو شام زنگین کر دی اس نے مگر یار بڑی چالو لڑکی ہے یوں چٹر پٹر جواب دیتی اور آنکھیں گھما گھما کے دیکھتی کہ دل چاہتا بندہ چوم لے. عرفان نے کہا تو چوم لیتے یار تمھاری دسترس میں تھی عاصم بولا بھابھی خوش رکھے گی تجھے عرفان فوراً بولا کونسی بھابھی جو مجھ سے ملنے آگئی بغیر جان پہچان کے وہ خدا معلوم کتنی چالو ہو کس کس سے ملنے جاتی ہو ایسی لڑکیاں گھر بسانے کے لیے نہیں ہوتی بس شغل میلے کے لیے ہوتیں.تبھی