لومڑیاں
لومڑیاں
قدرت نے عورت کا ہر روپ ہر رشتہ بہت خوبصورت اور قابلِ ستائش بنایا ہے وہ ماں بنی تو قدموں تلے جنت بچھا دی بیٹی بنی تو جہنم سے ڈھال اور جنت کا پروانہ بن گئی بہن بنی تو بھائیوں کی غیرت بن گئی اور جب بیوی بنی تو عزت کی چادر میں لپٹی شریکِ حیات. یوں تو یہ روپ عورت کے لیے کافی ہونے چاہیں تھے مگر خدا معلوم اس میں بغاوت کہاں سے آگئی اس نے ایک اور روپ دھار لیا لومڑی کا روپ. اور پھر ہر جگہ یہ لومڑیاں نظر آنے لگیں عام ہونے لگیں. یہ لومڑیاں اکثر مرض الحرص میں مبتلا ہوتی ہیں کبھی دولت کی حرص, کبھی خوبصورتی کی, کبھی نفسانی خواہشات کی, کبھی فیشن اور کبھی دوسروں کی خوشیوں کہ حرص..اپنے لالچ و حرص کی تکمیل کے لیے یہ ہر حد تک گر سکتی ہیں انکے لیے ہر انگور میٹھا ہوتا ہے. ان لومڑیوں کی شہر کے ہر بیوٹی پارلر تک رسائی ہوتی ہے انکے پاس ہر رنگ کی لپسٹک.نیل پینٹ اور جوڑے ہوتے ہیں انکی نقلی پلکیں اور کئی کئی ہیئر پیس مردوں کو لبھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں. اور انکا ٹارگٹ ہوتے ہیں وہ بیوقوف مرد جو اپنے وقتی سکون و عیاشی کے لیے اپنی دولت , عزت, جزبات اور محبت سب نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں. اور انکے مقابل انتہائی تھکا ماندا اور لڑنے سے پہلے چت ہونے والا کھلاڑی ہوتا ہے گھریلو نکارہ عورت جسکی حالت کسی پرانے صوفے کی طرح ہوتی ہے جسکا ہر سپرنگ ڈھیلا ہو اور وقت و بیوفائی کہ دھول اسکی پوشش سے نرمی بھی چھین چکی ہو. اس کھوچل عورت کے برعکس لومڑیاں بہت چاق و چوبند ہوتی ہیں ایک ہی وقت میں ایسا جال پھینکتی ہیں کہ کئی مرد بغیر پانی کے تڑپتی مچھلی کی طرح بھاگے چلے آتے ہیں. اور یہ کسی کو محبت کسی کو شادی کسی کو مجبوری کا جھانسہ دیئے ایسے مصروف رکھتیں ہیں کہ ان بیوقوفوں کو اپنے استعمال ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا. انکو فرق نہیں پڑتا کہ شکار جوان ہے یا بوڑھا صحت مند ہے یا بیمار یہ بس اپنے مطلوبہ ہدف کو سامنے رکھتے حملہ کرتی. دوسروں کا سکون و زندگی ہتھیانے میں ایسی ماہر کے مدمقابل کو زیر ہونے تک احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ہار چکا ہے. عورت کا یہ روپ خود عورت کے لیے سب سے بڑا وبال ہے. اللہ سبکی زندگیوں کو اس عتاب سے محفوظ فرمائے.
آمین
مصباح چوہدری
قدرت نے عورت کا ہر روپ ہر رشتہ بہت خوبصورت اور قابلِ ستائش بنایا ہے وہ ماں بنی تو قدموں تلے جنت بچھا دی بیٹی بنی تو جہنم سے ڈھال اور جنت کا پروانہ بن گئی بہن بنی تو بھائیوں کی غیرت بن گئی اور جب بیوی بنی تو عزت کی چادر میں لپٹی شریکِ حیات. یوں تو یہ روپ عورت کے لیے کافی ہونے چاہیں تھے مگر خدا معلوم اس میں بغاوت کہاں سے آگئی اس نے ایک اور روپ دھار لیا لومڑی کا روپ. اور پھر ہر جگہ یہ لومڑیاں نظر آنے لگیں عام ہونے لگیں. یہ لومڑیاں اکثر مرض الحرص میں مبتلا ہوتی ہیں کبھی دولت کی حرص, کبھی خوبصورتی کی, کبھی نفسانی خواہشات کی, کبھی فیشن اور کبھی دوسروں کی خوشیوں کہ حرص..اپنے لالچ و حرص کی تکمیل کے لیے یہ ہر حد تک گر سکتی ہیں انکے لیے ہر انگور میٹھا ہوتا ہے. ان لومڑیوں کی شہر کے ہر بیوٹی پارلر تک رسائی ہوتی ہے انکے پاس ہر رنگ کی لپسٹک.نیل پینٹ اور جوڑے ہوتے ہیں انکی نقلی پلکیں اور کئی کئی ہیئر پیس مردوں کو لبھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں. اور انکا ٹارگٹ ہوتے ہیں وہ بیوقوف مرد جو اپنے وقتی سکون و عیاشی کے لیے اپنی دولت , عزت, جزبات اور محبت سب نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں. اور انکے مقابل انتہائی تھکا ماندا اور لڑنے سے پہلے چت ہونے والا کھلاڑی ہوتا ہے گھریلو نکارہ عورت جسکی حالت کسی پرانے صوفے کی طرح ہوتی ہے جسکا ہر سپرنگ ڈھیلا ہو اور وقت و بیوفائی کہ دھول اسکی پوشش سے نرمی بھی چھین چکی ہو. اس کھوچل عورت کے برعکس لومڑیاں بہت چاق و چوبند ہوتی ہیں ایک ہی وقت میں ایسا جال پھینکتی ہیں کہ کئی مرد بغیر پانی کے تڑپتی مچھلی کی طرح بھاگے چلے آتے ہیں. اور یہ کسی کو محبت کسی کو شادی کسی کو مجبوری کا جھانسہ دیئے ایسے مصروف رکھتیں ہیں کہ ان بیوقوفوں کو اپنے استعمال ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا. انکو فرق نہیں پڑتا کہ شکار جوان ہے یا بوڑھا صحت مند ہے یا بیمار یہ بس اپنے مطلوبہ ہدف کو سامنے رکھتے حملہ کرتی. دوسروں کا سکون و زندگی ہتھیانے میں ایسی ماہر کے مدمقابل کو زیر ہونے تک احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ہار چکا ہے. عورت کا یہ روپ خود عورت کے لیے سب سے بڑا وبال ہے. اللہ سبکی زندگیوں کو اس عتاب سے محفوظ فرمائے.
آمین
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment