ٹھکرائے جانے کا عذاب

ٹھکرائے جانے کا عذاب بڑا جان لیوا ہوتا ہے, کتنے آنسو آنکھوں میں خشک ہوجاتے ہیں, کتنی سسکیاں حلق میں ہی کہیں دم توڑ جاتی ہیں,اندر ہی اندر انسان ختم ہوتا جاتا ہے. اس بھاری بوجھ تلے دب کے سارے ارمان, سارے احساس سارے جذبات دم توڑنے لگتے ہیں. ناامیدی کے اندھیرے ہر سو گہرے ہوتے جاتے ہیں. انسان اس بھار کو اٹھائے کبھی امید کے راستے تک پہنچ ہی نہیں پاتا ہر گزرتا لمحہ بدگمانی و مایوسی کی دلدل میں اتارتا جاتا ہے. پہلے پہل آئینے کے سامنے موجود چہرے پہ ترس آنے لگتا ہے اور پھر نفرت ہونے لگتی ہے. منہ چڑاتا آئینہ دشمن جاں بن جاتا ہے. تب دعائیں, بد دعائیں بے معنی ہو جاتی ہیں. لوگوں کی باتیں تیر بن کے چبھتی ہیں, انکی محبتیں ہمدردیاں لگنے لگتی ہیں اور ہمدریاں صرف انکے ترس کھانے کا اظہار, دوسروں کی کامیابیوں سے انکی خوشیوں سے جلن ہونے لگتی ہیں اور تقدیر کے سامنے پھوٹتی تدبیریں انسان اور خدا کے بیچ دیوار بن کے حائل ہو جاتی ہیں. تب سجدوں سے لذت چھن جاتی ہے, دل میں یقین کی قبر بن جاتی ہے. بہت سے ارمان بن پانی کی مچھلیوں کی طرح تڑپتے رہتے ہیں اور انسان بے بسی کی اوٹ سے چپ چاپ پتھر بنا دیکھتا رہ جاتا ہے. ایسے لگتا ہے جیسے کسی سیاہ لمحے میں وقت اور بخت کا پہیہ جام ہو گیا ہو. اور دنیا اپنی مستی میں چور چلی جا رہی ہو. کوئی کیا جانے کہ اسکی ایک لمحے کی کاروائی نے کسی کی صدیاں ویران کر دی ہیں. لمحوں میں صدیاں مقید ہونے لگیں تو انسان مر سا جاتا ہے. اور اپنی نعش اپنے کندھوں پہ اٹھائے چلنے کی اذیت پورے گھر کو قبرستان بنا دیتی ہے...... مگر کوئی کیا جانے
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

گینگ ریپ

طلاق

سب بکتا ہے