بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار
"بچوں کی کردار سازی میں والدین کا کردار"
بچے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ شادی شدہ زندگی کے سارے رنگ انہی کے دم قدم سے ہیں۔ لیکن جہاں قدرت نے ماں باپ کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کے لیے بچے عطا کیے ہیں وہیں بچوں کی زندگی کو خوبصورت اور مکمل کرنے کے لیے ماں باپ جیسی ہستیوں سے نوازا ہے۔ کبھی غور کریں تو پتہ چلتا کہ انسان کہ علاوہ تمام جانداروں کی اولادیں پیدائش کے فوری بعد اٹھنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں۔ لیکن نسل آدم کی بقا کا انحصار اسکے والدین پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں والدین کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا۔ اسلام میں بھی اولاد کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں نہ۔ بچے کی زندگی کے تمام معاملات کا دارومدار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے اور تربیت میں سب سے اہم والدین کے عمل انکا ایک دوسرے اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ رویہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسان ہے کہ وہ اعمال کو دیکھ کے زیادہ راغب ہوتا ہے۔ تبھی اولین درسگاہ ماں کی گود کو کہا گیاہے۔ اسی درسگاہ میں بچہ سیکھتا ہے کہ اسنے دوسروں کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھناہے۔ زندگی میں آنیوالی مشکلات کا سامنا کیسے کرنا اور کامیابیوں کو کیسے سمیٹنا ہے۔ ایسے میں گھر کے افراد کا رویہ اور ماحول بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں کہ و کیسا انسان بنے گا۔ ایسے گھرانے جہاں والدین پڑھے لکھے اور سمجھدار ہوں۔آپس کے اختلافات کو بچوں پر کبھی عیاں نہیں ہونے دیتے۔ خوش اسلوبی، معاملہ فہمی، ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام، دھیمہ مزاج اور شائستہ لہجہ بچوں کی کردار سازی میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتے ہیں یہی وجہ ہےکہ ایسے خاندانوں کے بچے اچھے کردار اور اعلی اخلاق کے حامل ہوتے ہیں وہ معاشرتی رکھ رکھاو، روایات، احترم انسانیت کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہوتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے گھرانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اسکے برعکس ان گھرانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں ماں باپ کی لڑائیاں، الزام تراشیاں، نفرت، بے عزتی و بے اعتباری اور مار کٹائی عام ہو۔ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچے جذباتی و اخلاقی لحاظ سے نہایت کمزور ہوتے۔ احساس کمتری، تعلیم اور صحت میں کمزوری، چوری چکاری، نشے کی لت، صبروتحمل کی کمی جیسی خصوصیات ان بچوں کا خاصہ ہوتیں۔ یہ بچے دوسروں پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے سے جڑے رشتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ماں باپ کے درجہ کو پالینا بہت بڑی سعادت اس لیے بھی ہے کہ معاشرے کی بناوٹ اور کردار سازی انکے کندھوں پر ہوتی ہے۔ وہ بچے جنکو دنیا میں لانے کا سبب آپ بنے انکی زندگی کے تمام اچھے برے فیصلوں کا انحصار آپکی تربیت اور پیدا کردہ ماحول پر ہے۔ اپنے بچوں کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ایک مکمل اور خوبصورت زندگی دیں تاکہ آپ کے ساتھ انکا رشتہ ہمیشہ محبت، عزت اور احترام کی علامت رہے۔ ایسا سلوک انکے ساتھ یا انکے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ روا نہ رکھیں کہ اس قابل احترام تعلق کا دم گھٹ جائے یا فقط بوجھ بن کے رہ جائے اور اولاد کے لیے انکے اپنے وجود کی اہمیت حوس کے لیے گزارے گئے چند بدبودار لمحوں کی پیداوار کے سوا کچھ نہ ہو۔ (مصباح چوہدری)
بچے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ شادی شدہ زندگی کے سارے رنگ انہی کے دم قدم سے ہیں۔ لیکن جہاں قدرت نے ماں باپ کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کے لیے بچے عطا کیے ہیں وہیں بچوں کی زندگی کو خوبصورت اور مکمل کرنے کے لیے ماں باپ جیسی ہستیوں سے نوازا ہے۔ کبھی غور کریں تو پتہ چلتا کہ انسان کہ علاوہ تمام جانداروں کی اولادیں پیدائش کے فوری بعد اٹھنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں۔ لیکن نسل آدم کی بقا کا انحصار اسکے والدین پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں والدین کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا۔ اسلام میں بھی اولاد کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں نہ۔ بچے کی زندگی کے تمام معاملات کا دارومدار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے اور تربیت میں سب سے اہم والدین کے عمل انکا ایک دوسرے اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ رویہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسان ہے کہ وہ اعمال کو دیکھ کے زیادہ راغب ہوتا ہے۔ تبھی اولین درسگاہ ماں کی گود کو کہا گیاہے۔ اسی درسگاہ میں بچہ سیکھتا ہے کہ اسنے دوسروں کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھناہے۔ زندگی میں آنیوالی مشکلات کا سامنا کیسے کرنا اور کامیابیوں کو کیسے سمیٹنا ہے۔ ایسے میں گھر کے افراد کا رویہ اور ماحول بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں کہ و کیسا انسان بنے گا۔ ایسے گھرانے جہاں والدین پڑھے لکھے اور سمجھدار ہوں۔آپس کے اختلافات کو بچوں پر کبھی عیاں نہیں ہونے دیتے۔ خوش اسلوبی، معاملہ فہمی، ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام، دھیمہ مزاج اور شائستہ لہجہ بچوں کی کردار سازی میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتے ہیں یہی وجہ ہےکہ ایسے خاندانوں کے بچے اچھے کردار اور اعلی اخلاق کے حامل ہوتے ہیں وہ معاشرتی رکھ رکھاو، روایات، احترم انسانیت کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہوتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے گھرانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اسکے برعکس ان گھرانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں ماں باپ کی لڑائیاں، الزام تراشیاں، نفرت، بے عزتی و بے اعتباری اور مار کٹائی عام ہو۔ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچے جذباتی و اخلاقی لحاظ سے نہایت کمزور ہوتے۔ احساس کمتری، تعلیم اور صحت میں کمزوری، چوری چکاری، نشے کی لت، صبروتحمل کی کمی جیسی خصوصیات ان بچوں کا خاصہ ہوتیں۔ یہ بچے دوسروں پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے سے جڑے رشتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ماں باپ کے درجہ کو پالینا بہت بڑی سعادت اس لیے بھی ہے کہ معاشرے کی بناوٹ اور کردار سازی انکے کندھوں پر ہوتی ہے۔ وہ بچے جنکو دنیا میں لانے کا سبب آپ بنے انکی زندگی کے تمام اچھے برے فیصلوں کا انحصار آپکی تربیت اور پیدا کردہ ماحول پر ہے۔ اپنے بچوں کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ایک مکمل اور خوبصورت زندگی دیں تاکہ آپ کے ساتھ انکا رشتہ ہمیشہ محبت، عزت اور احترام کی علامت رہے۔ ایسا سلوک انکے ساتھ یا انکے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ روا نہ رکھیں کہ اس قابل احترام تعلق کا دم گھٹ جائے یا فقط بوجھ بن کے رہ جائے اور اولاد کے لیے انکے اپنے وجود کی اہمیت حوس کے لیے گزارے گئے چند بدبودار لمحوں کی پیداوار کے سوا کچھ نہ ہو۔ (مصباح چوہدری)
Comments
Post a Comment