Posts

Showing posts from July, 2020

بلی کا ریپ

بلی کے بچے کا ریپ کوئی نئی بات نہیں ہے. بدقسمتی سے اشرف المخلوقات کے ٹیگ کے ساتھ پیدا ہونے والا انسان جب مقرر کردہ راستوں کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو ابلیس بھی مارے شرم "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" پڑھنے پہ مجبور ہو جاتا ہے. بلی بکری بھیڑ بھینس کونسا جانور ہے جس سے انسان نے نفسانی خواہش کی تسکین نہ کی ہو. بکریوں کے ریوڑ میں موجود کئی بکریاں حوس کی بھینٹ چڑھتی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں. افسوس کہ کتے جیسے جانور کو نہیں بخشا جاتا. مسلمانیت تو دور کی بات ہے کیا ہم انسانیت کے کسی درجے میں بھی آتے ہیں؟ عورت مرد بچے جانور کونسی مخلوق ہے جہاں تخم انسان بونے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کبھی سوچا ہے قومیں ترقی کب کرتی ہیں؟ قومیں ترقی تب کرتی ہیں جب جسم کی خواہش انکی ترجیحات سے نکل جاتی صرف مقصد کی پاسداری سامنے ہوتی ہے. اب وہ مقصد کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا بھی ہوسکتا ہے اور آسمانوں پہ کمند ڈالنا بھی. مگر ہمارے ہاں اول و آخر مقصد جسم کا حصول ہے. ایک کے بعد ایک جسم, کمزور طاقتور کٹیلہ نشیلا لچیلا ہر طرح کا جسم. کبھی فرصت ملے تو سوچیں کہ کیا فرق ہے ہم میں اور ان جانوروں میں جو گلی محلوں می

دلخراش

پچھلے دنوں کی تیز دھوپ اور بارشوں نے جہاں انتظامیہ کی کارکردگی کی کلئی کھولی وہیں انکی مفلوج دماغی حالت کا اظہار بھی سر عام کیا. کسی ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ چمچوں کڑچھوں کا ہونا ایک بہت عام سی بات ہے مگر انکے ساتھ کسی سرکاری ادارے کے آفیشل کا یوں چھتری پکڑے چلنا سبکو اچھنبے میں ڈال دیتا ہے. دونوں فریقین میں گریڈز کا فرق ضرور ہوتا ہے مگر دونوں چونکہ سرکاری ملازم ہیں لہذا کسی پولیس والے کو شایاں نہیں کہ کسی اے سی یا ڈی سی کے ساتھ بارش یا چلچلاتی دھوپ میں چھتری پکڑ کے چلے. اور نہ ہی کسی بیوروکریٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی سرکاری ملازم کے ساتھ ایساتوہین آمیز سلوک روا رکھیں.یہ بات نہ صرف اس افسرِ شاہی کے اخلاقیات سے خالی عملوں کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ یہ اسکی سوچ کی غلامی کا اظہار بھی کرتی ہے. انگریز چونکہ برصغیر کے لوگوں کوکمتر سمجھتے تھے اس لیے انکے ساتھ غلامانہ سلوک کیا جاتا تھا مگر دونوں ممالک کی آذادی کے بعد تو موقف اصولی طور پہ بدل جانا چاہیے تھا کیونکہ نوکر شاہی کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے ناکہ انکو حقیر جاننا. جو لوگ اپنا چھاتا خود نہیں سنبھال سکتے وہ ملکی باگ دوڑ کیسے س

ان چاہی اولاد

ان چاہی اولاد کہتے ہیں کہ بچے بہت شرارتی ہوتے ہیں. تو کیوں نہ ہوں بھئی ماں باپ کی شرارتوں کا نتیجہ ہیں تو شرارت تو انکے جینز میں ہوئی. مگر والدین کی یہ شرارت ضروری نہیں بچے پیدا کرنے کی نیت سے ہو. کئی بار یہ صرف تسکین نفس کے لیے ہوتی ہے جسکے نتیجے میں ان چاہی اولاد کا وجود چاہتوں بھری زندگیوں میں شامل ہوجاتاہے. مگر افسوس یہ چاہتیں بچوں کے لیے راحتیں نہیں بن پاتیں. مرد کو لگتا ہے کہ بچہ آنے سے اسکی اہمیت کم ہوگئی ہے عورت اسکی بجائے بچے کو وقت دینے لگی ہے جو سراسر غلط ہے. ایسے میں لوگ اپنے ہی بچے کو رقیب ماننے لگتے ہیں. مرد کی جسم کی تسکین کی خواہش اور عورت کا کہنا کہ دن رات آپ کے بچے کو سنبھالوں یا آپکا بستر گرم رکھوں میں بھی انسان ہوں نہیں کر سکتی. ایسے میں اندھی خواہشیں سر پہ چڑھ کے ناچنے لگتی ہیں. جسم کی شدید طلب گھروں میں اکثر لڑائی کا بازار گرم رکھتی ہے. اور بچے بیچارے سہمے بس دیکھتے رہ جاتے ہیں. انکا معصوم زہن بس سوچتا رہتا ہے ان گالیوں کا ان لڑائیوں کا جو انکی زندگی سے سکون چھین چکی ہوتی ہیں کیا انجام ہو گا. سارا دن لڑائی میں گزارنے کا بعد اگلی صبح جب ماں اور باپ دونوں ہنسی مزا

کہی ان کہی

ہمارے ہاں جوانی کی دہلیز پہ قدم دھرتے ہی جہاں ایک طرف جذبات کی ریل پیل ہوتی وہیں ضروریات کی ایک لمبی فہرست. سترہ سے بیس سال کی عمر عموماً خواب بننے کی ہوتی ہے جہاں لڑکیاں کسی ہیرو کی بانہوں میں بانہیں ڈالے برستے بادلوں تلے ہوا کے سنگ لہراتے آنچل کو آذاد چھوڑے محبت کے گیت گانا چاہتی ہیں اور لڑکے آغوش محبوب میں سہانے مستقبل کے خواب سجانا چاہتے ہیں مگر حالات کی ستم ظریفی کہ ہمارے ہاں ناں ہی ان گیتوں کی کوئی وقعت ہے اور ناں ہی ان خوابوں کی. مادیت پرستی کے مارے لوگ محبت کی بجائے آسائشات کو ترجیح دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ رشتہ جوڑتے وقت پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے کماتا کتنا ہے گھر بار کیسا ہے؟ لڑکی کتنا پڑھی نوکری کرتی کے نہیں باپ بھائی کیا کرتے ہیں؟ مگر پوچھنے والے نہیں جانتے کہ یہاں بس جھولیاں محبتوں کے پھولوں سے بھری ہیں آنکھوں میں ان گنت خوابوں کی خماری ہے اور دل میں کئی جذباتوں کی ہلچل. افسوس کہ اس دین کے پیروکار جسکا خدا اپنے رازق ہونے کا دعوی کرتا ہے اور جسکی تعلیمات میں ہے کہ رزق عورت کے مقدر سے ملتا ہے ان ساری باتوں کو در خور اعتنا سمجھتے ہیں. کوئی نہیں سمجھتا کہ وقت کے

مادیت پرستی

مادیت پرستی گھن کی طرح احساس,خلوص اور خون کے رشتوں کو کھا رہی ہے. اب تو لگتا ہے کہ رشتوں کو سنبھالنے کے لیے انہیں جوڑنے اور انکی اصل حیثیت میں رکھنے کے لیے صاحبِ حیثیت ہونا ضروری ہے. کتنا عجیب دور ہے ناں انسان کی اہمیت اسکے انسان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اسکی مالی حالت کی وجہ سے ہے😒 مگر اگر رشتے نہ رہیں تو انسان کب تک دولت کے ڈھیر پہ بیٹھ کے سکون کی نیند کا انتظار کرے گا؟ اپنوں سے انکی غربت کی وجہ سے منہ موڑنے والے ٹھکرائے جانے کی اذیت سے نہیں گزرتے اسی لیے انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ پیچھے رہ جانے والے کی روح گردشِ دوراں میں کہیں کھو سی جاتی ہے اور اسکے پاس فقط خالی گوشت پوست کا بنا جسم رہ جاتا ہےجسکو افلاس کی چادر میں لپیٹ کے قبر میں ہمیشہ کی نیند سونے تک انتظار کرنا ہوتا ہے. مصباح چوہدری

کوڑے دان

کبھی کبھی دل چاہتا ہے ہر گھر میں ایک ایسا کوڑا دان ہو جس میں کوڑِے کرکٹ کی جگہ نفرتوں کو پھینکا جا سکے اور کوئی صفائی والا ہمیشہ کے لیے انہیں ہماری زندگیوں سے دور لے جائے ہمارے گھر اور دل اس غلاظت سے پاک ہو جائیں. پھر رشتوں کے بیچ کدورتیں نہ ہوں, مفادات نہ ہوں بس محبتیں ہوں. دلوں کو جوڑتی محبتیں, ہاتھ تھام کے چلتی محبتیں, غلطیاں درگزر کرتی محبتیں اور بدگمانیوں کے بھنور سے نکالتی چاہتیں. پھر شاید انائیں رشتوں سے بڑی نہ ہوں, پھر شاید رشتوں کی قبر پہ کسی کو ماتم نہ کرنا پڑے.اگر ایسا ہو جائے تو کوئی کسی کے جانے پہ ندامت کے آنسو نہ بہائے گا بلکہ محبت سے دوری کا درد محسوس کرے گا. نفرتیں زندگیوں سے منہا ہو جائیں تو خوشیوں کو جگہ مل سکتی ہے. بس گھر میں ایسی ڈسٹ بن کی ضرورت ہے....کاش کے مل جائے ایسا کوڑا دان.. اور ہو جائے سبکی زندگی آسان.. مصباح چوہدری

ٹھکرائے جانے کا عذاب

ٹھکرائے جانے کا عذاب بڑا جان لیوا ہوتا ہے, کتنے آنسو آنکھوں میں خشک ہوجاتے ہیں, کتنی سسکیاں حلق میں ہی کہیں دم توڑ جاتی ہیں,اندر ہی اندر انسان ختم ہوتا جاتا ہے. اس بھاری بوجھ تلے دب کے سارے ارمان, سارے احساس سارے جذبات دم توڑنے لگتے ہیں. ناامیدی کے اندھیرے ہر سو گہرے ہوتے جاتے ہیں. انسان اس بھار کو اٹھائے کبھی امید کے راستے تک پہنچ ہی نہیں پاتا ہر گزرتا لمحہ بدگمانی و مایوسی کی دلدل میں اتارتا جاتا ہے. پہلے پہل آئینے کے سامنے موجود چہرے پہ ترس آنے لگتا ہے اور پھر نفرت ہونے لگتی ہے. منہ چڑاتا آئینہ دشمن جاں بن جاتا ہے. تب دعائیں, بد دعائیں بے معنی ہو جاتی ہیں. لوگوں کی باتیں تیر بن کے چبھتی ہیں, انکی محبتیں ہمدردیاں لگنے لگتی ہیں اور ہمدریاں صرف انکے ترس کھانے کا اظہار, دوسروں کی کامیابیوں سے انکی خوشیوں سے جلن ہونے لگتی ہیں اور تقدیر کے سامنے پھوٹتی تدبیریں انسان اور خدا کے بیچ دیوار بن کے حائل ہو جاتی ہیں. تب سجدوں سے لذت چھن جاتی ہے, دل میں یقین کی قبر بن جاتی ہے. بہت سے ارمان بن پانی کی مچھلیوں کی طرح تڑپتے رہتے ہیں اور انسان بے بسی کی اوٹ سے چپ چاپ پتھر بنا دیکھتا رہ جاتا ہے. ایسے

محبت وحبت

کبھی کبھی لگتا ہے کہ محبتوں کے رشتے محض لفظوں کے دھاگوں سے بندھے ہوتے ہیں. جبھی تو ہر وقت باتیں ہوتی ہیں صبح شام سوتے جاگتے ہر وقت لفظوں کے گجروں سے محبوب کے دل میں گھر کیا جاتا ہے. اور ہر نئی مالا سے رشتے کو مضبوط کرنے کی تگ و دو. مگر کب تک؟ الفاظ آخر الفاظ ہیں بڑی غیرت ہوتی ہے ان میں. بہت زیادہ استعمال ہو جائیں تو تاثیر نہیں رہتی. اور عاشقوں کو تو اپنی دھڑکنیں بھی معنی و مفہوم کے دھاگوں میں پرو کے الفاظ میں سنانا پڑتی ہیں. اسی لیے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب الفاظ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں کسی کے نام کی تسبیح نہیں بنتے. شاید ایسے ہی کسی موقعے کی مناسبت سے منٹو نے کہا تھا کہ مرد کے پاس جب الفاظ ختم ہو جاتے ہیں تو وہ چومنا شروع کر دیتا ہے. اور ایسا کرنا شاید مجبوری ہے محبوب کی توجہ اور اسکا لگاؤ قائم رکھنے کے لیے عاشق ایساسہارا لیتے ہیں. تبھی تو ان کے ان باکس میں "ummmahhh" muuuaah"😘  جیسی چیزیں لفظوں کی نسبت زیادہ ملتیں ہیں.یہ عمل یہیں نہیں رکتا.ہر لحظہ اس میں جدت آتی ہے. بہت ساری چیزیں شامل ہوتی ہیں. اور اس طرح محبت کا یہ پودا پروان چڑتا ہے. شاید یہ سب اسکی غذا ہے. ایسی غذا

بارش

بارش کی بوندیں بھی عجیب ہوتی ہیں. بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیتی ہیں. کسی کے لطف اندوز ہونے کا سامان مہیا کرتی تو کسی کو سر ڈھانپنے کی فکر سے دوچار. بڑی بوندیں شاید بڑے دکھوں جیسی ہیں جو ایک ہی جھٹکے میں بہت کچھ بہا کے لے جاتیں. اور باریک بوندیں روز مرہ کے دکھوں جیسی چھوٹی چھوٹی محرومیوں جیسی جن سے لاکھ چاہے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا.جیسے چھوٹی بوندیں زمین سے سر ٹکرانے پہ اپنا رستہ نہیں بدلتی بلکہ اس میں جذب ہو جاتی ہیں.یہ دکھ یہ محرومیاں بھی ہمارے اندر رفتہ رفتہ مگر مسلسل اپنا زہر اتارتے رہتے ہیں. انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے. کسی کوڑھی کے زخموں کی طرح جگہ جگہ سے رستے دکھ ہر سانس اذیت سے بھر دیتے ہیں شاید انکا کوئی مداوہ بھی نہیں ہوتا. یہ بوجھ سبکا اپنا اپنا ہے. آنکھوں میں بھلے آنسو ہوں دل میں آہیں مگر جینا تو انکے ساتھ ہی پڑتا ہے. مصباح چوہدری

رشتے دار

معذرت کے ساتھ بہت سی باتیں وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آتی ہیں مگر ان کے سمجھ آنے تک ہم اپنی سوچ کے زہر سے کئی زندگیوں کو ڈس چکے ہوتے ہیں. جیسا کہ "بہن برا مت ماننا تمھاری جوان بیٹی ہے اور تم نے گھر میں کیبل لگوا رکھی ہے. اللہ معاف کرے نری خرافات ہے یہ" پھر توبہ توبہ فلاں کی بیٹی نے اتنا میک اپ کیا ہوا تھا. پتہ نہیں کس کو دکھانا ہے ہم تو اللہ میاں کی گائے تھے لپ سٹک بھی زندگی میں پہلی بار اپنی شادی پہ لگائی اور تو اور کپڑوں پہ تزکرے کہ ہائے ہائے "کی ستھنیاں جیاں پایاں ہویاں ساریا لتاں نظر آندیاں, لنڈیاں پچیاں قمیضاں, گلے ویکھو تے قمیض دی فٹنگ قہر خدا کا انگ انگ نظر آتا ہے" ہائے تم نے باجی کے بیٹے کو دیکھا ہے کانوں میں ٹوٹیاں لگائے ہر وقت موبائل پہ لگا رہتا. بہن بھی موبائل نہیں چھوڑتی اور ناخن دیکھ اتنے بڑے, حرام کھاتے ہیں سارے. کہہ دو تو دشمن سمجھتے ہیں ہمیں کیا جب قبر میں سانپ اور بچھو آئے تب پتہ چلے گا. یہ اور اس طرح کی ہزار باتیں پھوپھیاں ماسیاں چاچیاں کرتی رہتی ہیں. مگر جب انکی اولادیں جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھیں تو میک اپ سے اٹے چہرے, فیٹنگ والے کپڑے لمبے ناخن, موب

ہیجڑے

کھسرا, ہیجڑا, جناناں, خواجہ سرا یا کراس جینڈر ایسے الفاظ ہیں جو ہمیشہ تحقیر یا ہتک کے اظہار کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں. کتنا عجیب ہے ناں کسی انسان کو اسکے حصے کی عزت صرف اس وجہ سے نہ دینا کہ وہ مرد یا عورت کے جسمانی معیار پہ پورا نہیں اترتا. میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ کیسے لوگ ہیں یہ جنکو انکا پیدا کرنے والا بھی نہیں جانتا. قرآن میں اسکا مخاطب بس مرد اور عورت رہے ہیں جبکہ یہ تیسری ان دونوں کے بیچ کی چیز کبھی اسکی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی. مگر پھر میری نظر سے ایک امریکی ریسرچر Harry Klinefelter کی 1942 میں کی گئی تحریر گزری. جس میں ایک بیماری Klinefelter Syndromeکے بارے بات کی گئی تھی جسکے مطابق ہیجڑا کوئی تیسری صنف نہیں بلکہ مرد یا عورت کی ایک جسمانی بیماری ہے. جسکے مطابق X اور Y کروموسومز کی تعداد کی عدم مطابقت کی وجہ سے بچے کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا اور بچہ ابنارمل پیدا ہوتا ہے اس تحریر کے بعد ایسے بچوں کے لیے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ہو گیا. مگر یہ کیا کہ آجکل کھسرا بننے کے لیے اس بیماری کا شکار نہیں ہونا پڑتا. بلکہ سائنس کی مدد سے کوئی بھی مرد ہیجڑا بن سکتا ہے یا کوئی

بیٹیاں

میں سوچ رہی تھی ہم جتنے بھی تعلیم یافتہ اور آذاد خیال ہو جائیں بیٹیوں کو مساویانہ حقوق دینے کہ ہمارے دعوے ہمیشہ کھوکھلے ہی رہیں گے.ہم فرط جذبات میں ان سے یہ کہہ دیتے کہ بیٹا تم آذاد ہو اپنے ہر فیصلے میں جتنا مرضی پڑھو اور اگر کوئی پسند ہو تو ہمیں بتانا.تمھاری خوشی میں ہماری خوشی ہے.مگر یہ سب جذباتی باتیں ہیں.سچ تو یہ ہے کہ بیٹیوں کے حوالے سے آیا ہوا رشتہ ہمیشہ مشکوک ہوتا ہے اس انسان کی اچھائی کا دعوی بھلے ساری خدائی کرے مگر یہ معلومات معیاری نہیں ہوتیں اسکے برعکس بیٹے یا رشتے والی کے توسط سے آنے والا رشتہ قابل بھروسہ ہوتا ہے کم از کم اتنا کہ اسکو دیکھا جا سکے. اور ان کے ذریعے حاصل ہوتے والی معلومات مستند ہوتی ہیں. کیا بیٹیاں سچ میں برابر ہوتی ہیں؟ اگر انکی رائے اتنی غیر اہم ہے تو آذادی کا پٹہ ڈال کر انہیں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ انکے حقوق صلب کرنے ہیں تو شعور کی بیداری کی ضرورت کیوں ہے؟ پتہ ہے جب جان جاتی ہیں نا اپنا مقام تو زیادہ ٹوٹتی ہیں اور اسطرح بکھرتی ہیں کہ کبھی جڑ نہیں پاتیں. یوں بے اعتباری ہو جاتیں ہیں کہ پھر کوئی قابل اعتبار نہیں رہتا. اتنی کمزور ہو جاتیں کہ پھر کوئی فیصلہ

کیسی محبت ہے؟؟؟

میں آج تک نہیں سمجھ پائی محبت کیا ہے؟ کسی کا اچھا لگنا. کسی سے باتیں کرنا. کسی کی پرواہ کرنا. کسی کو خود سے زیادہ چاہنا؟ کسی کو پا لینا یا کسی کو کھو دینا. بہت سارے لوگوں سے سنا کہ محبت روح سے ہوتی ہے. مگر روح سے محبت کے چکر میں جسم کا دروازہ کھولتے ہوئے بچوں کی جو لائن برآمد ہوتی ہے اسکو کہا کہیں گے؟ محبت کا تعلق اگر صرف روح سے ہے تو پانے کی خواہش اور کھونے کا ڈر کیسا؟ محبتوں کا دم بھرنے والے اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں تم سے کیسا پردہ میرے جسم, میری جان پہ مجھ سے زیادہ حق تمھارا ہے. اسکا مطلب ہے محبوب ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہیں کوئی پردہ نہیں اگر ایسا ہے تو روح کہاں ہے اس میں؟کبھی سوچا ہے اگر اللہ کو محبت ایسے ہی رکھنا ہوتی ننگی دھڑنگی غلاظت زدہ تو میاں بیوی کا رشتہ کیوں بناتا؟ کبھی سوچا ہے محبت کرنے والے ہمیشہ پل صراط پہ چلتے ہیں گناہ اور ثواب کی بیچ کی پل صراط, نیکی اور بدی کی پل صراط, جائز اور ناجائز کی پل صراط. اتنے پل صراطوں کو پار کرنے کے لیے موبائل کے سگنلز کا چھوٹا سا سہارا, جھوٹے سچے وعدوں کی کمزور ڈور اور نمبر بلاک کرنے سے پہلے کی ہلکی سی امید ہوتی ہے. ان کو نکال دیا جائ

لڑکیاں

لڑکیاں تین قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جو گھر آئی محبت کو کسی مال غنیمت سے ملی سوغات کی طرح شکریہ ادا کرتے ہوئے رکھ لیتی ہیں اور لانے والے کے کاسے میں اپنی محبت کی خیرات ڈال کر اپنی برابری کا حق ادا کرتی ہیں. جبکہ دوسری قسم کی لڑکیاں جو اس سوغات کو دامن پھیلائے اپنی آغوش میں تو بھر لیتیں ہیں مگر ان میں ایک اگلے گئیر کے ساتھ چار پچھلے گئیر نصب ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے نہیں دیتے. جبھی تو یہ محبتوں کے بدلے مجبوریوں میں لپٹی کہانیاں سنا کر خود کو بے بسی کی چادر میں ڈھانپ لیتی ہیں. اسکے برعکس تیسری قسم کی لڑکیاں محبت کے زیور کو اپنی خوبصورتی پہ گرہن سمجھتی ہیں. وہ صرف اپنے مفاد کی جنگ میں دوسروں کے ارمانوں کا لہو کرتے ہوئے میتیں دوسروں کے لیے چھوڑتی جاتی ہیں. انکے  لیےمحبت گھر کی باندی ہے جسے جب چاہو جس مقصد کے لیے چاہو استعمال کیا جا سکتا ہے. مصباح چوہدری

آخری خواہش

آخری خواہش میں لکھنا چاہتی ہوں اتنا کہ میرا اندر خالی ہو جائے. کوئی لفظ کوئی جذبہ کوئی سانحہ کوئی احساس باقی نہ رہے. سب لکھ دوں مگر کوئی پڑھ نہ پائے. پڑھ لے تو سمجھ نہ پائے. یا پھر مجھ میں لفظوں کا قحط پڑ جائے. سوچوں کے جنگل کو حماقتوں کی آگ لگ جائے اور شعور کی کوئی کونپل تک باقی نہ رہے. پھر میں آذاد ہو جاوں آگاہی کے عذاب سے جان چھوٹ جائے اور لاپرواہی کے ڈیرے مجھے بے حسی کی زندگی جینا سکھا دیں پھر میرے ہونٹوں پہ خود غرضی کے قہقہے گونجیں اور میری آنکھوں میں مادیت پرستی کی چمک ابھرے مصباح چوہدری

کائیاں لوگ

پتہ نہیں یہ محبتوں کی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آتی.شاید اسلیے کہ ہم لوگ بڑے کائیاں ہوتے ہیں ایک بار جان لیں کہ کوئی ہم پہ جان وارتا ہے تو جان لے کے ہی چھوڑتے ہیں. ہم آذاد رہنے والے لوگ ہیں محبت کی زنجیر سے بندھ کر کسی ایک کا ہو کے رہنا ہم نے سیکھا ہی کب ہے؟ یا یوں کہہ لیں کہ ہمارے پاوں بہت سی مجبوریوں کی زنجیروں سے بندھے ہیں ایسے میں محبتوں کے دعوے کر کے کسی کو دل میں جگہ تو دے سکتے ہیں مگر اپنا نام دے کر گھر کی عزت بنانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے. ہم چاہتے ہیں کوئی ہمارا کلمہ پڑھے, کسی کے ہونٹوں پہ ہمارے نام کے چھالے ہوں. مگر یہ سب جذبے وقتی ہوتے ہیں حالات کی ایک سوئی سے محبتوں کے غبارے سے آشنائی کی ہوا یوں نکلتی ہے کہ جیسے کبھی شناسائی نہ ہو. تب ہمیں ساری مجبوریاں یاد آجاتی ہیں. کتنا عجیب ہے ناں لوگ ہمارے لیے آپشنز ہوتے ہیں یا ٹشو پیپرز اپنی پسند کو پھینکا ماں باپ بہن بھائیوں کی پسند کا اٹھا لیا اور آخر میں سب کچھ نصیب کے کھاتے میں ڈال کر اپنا پلا جھاڑ کے ہوں بری الزمہ ہو جاتے ہیں جیسے کچھ کیا ہوا ہی نہیں. مصباح چوہدری

منافق لوگ

کہتے ہیں جس کے قول اور فعل میں تضاد ہو وہ بڑا منافق ہوتا ہے. اگر ایسا ہے تو ہم پاکستانی یقیناً صفِ اول کے لوگوں میں آتے ہونگے. ہمارا ملک اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا اور پھر اس میں ہر روز اسلام بیچا گیا. عمل سے عاری لوگوں نے محض باتوں کو کب اپنا شیوہ بنا لیا کسی کو علم بھی نہیں ہوا. پچھلے دنوں ایک پورن سٹار کا بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے لکھا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں میرے داخلے پر مکمل پابندی ہے. مگر میرے سب سے زیادہ پرستار اسی مملکت خداداد سے تعلق رکھتے ہیں. پھر ایک چونکا دینے والی رپورٹ پڑھنا نصیب ہوا جس میں میرا ملک پورن ویڈیوز دیکھنے والے ممالک کی فہرست میں بھی اول درجے کے ممالک میں شامل تھا. مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے. ایک لمحے کو دل کیا کہ سارا ملبہ انڈیا پہ ڈال دوں انہوں نے اس رپورٹ میں ہمارا نام ڈلوایا ہونا. ورنہ میرے ملک میں تو پارسا بستے ہیں چھوٹی موٹی ہیرا پھیری تو ٹھیک اب ننگی فلمیں دیکھنا تو بڑا عذاب ہے اور میرے کمزور لوگ تو ہمیشہ استغفار کی تسبیح پڑھتے ہیں. نہیں نہیں یہ ضرور دشمن کی چال ہے. استغفار اللہ استغفاراللہ... ابھی اس کشمکش سے پوری طرح نکل نہ پائی تھی

انسان اور جانور

کہتے ہیں انسان کی زندگی پہ اس کے ارد گرد کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں. وہ جو دیکھتا ہے اس سے سیکھتا ہے جو کھاتا اسکی تاثیر اسکے خون میں شامل ہو کر اپنا رنگ دکھاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ اسلام میں حلال اور حرام کا تصور بہت اہمیت رکھتا ہے. کبھی سوچا ہے اسلام ہمیں بکرے مرغی مچھلی بھیڑ اونٹ گائے اور بھینس وغیرہ تک ہی کیوں محدود کرتا ہے. حتی کہ مگرمچھ کا گوشت بھی مچھلی کی طرح ہوتا ہے جبکہ سور کا گوشت بھیڑ بکری یا گائے بھینس کی نسبت زیادہ لذیذ اور طاقت بخش ہوتا ہے. اسکی وجہ انسان کو محفوظ رکھنا تھا سور کی عادات سے. کہا جاتا ہے کہ ایک سورنی گروپ میں موجود تمام سور سے ایک وقت میں مباشرت کرتی ہے تو گروپ میں موجود تمام سور اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں گروپ سیکس کا تصور بھی شایداسی سے لیا گیاہے. اور شک نہیں کہ خنزیر کے گوشت کا ہی اثر ہو جو جو انسان حیوان بنا جاتا ہے. یہ جانوروں کے ساتھ رہنے کا اور عادتوں سے سیکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ کئی سو سال بعد بھی انسان موقع پرست شیر کی طرح گھات لگاتا ہے. بھیڑیوں کی طرح جھنڈ میں حملہ کرتا ہے. گدھ کی طرح مردار کھاتا ہے. لاشوں کی قیمت لگانا اور خوبصورت مردہ لڑکیوں کے ج

یونہی بے دھیانی میں

یونہی بے دھیانی میں بہت سے کام ہم بنا سوچے سمجھے کر جاتے ہیں جن میں سے ایک ہم لڑکیوں کا سرِراہ ڈوپٹہ ٹھیک کرنا ہے. پتہ نہیں یہ آنچل اسی وقت کیوں ڈھلکتا ہے جب سامنے سے کوئی خوبرو نوجوان آرہا ہو. دیکھنے والا ایسے دیکھتاہے کہ جیسےدکان والا اپنے سامان کی نمائش کر رہا ہواور خریدار خریدنے سے پہلے جائزہ لے کہ مال مکمل تو ہے.خیر ڈوپٹے کی چھوڑیں. آجکل مختلف قسم کے برقعے مارکیٹ میں دستیاب ہیں ان میں سےکچھ ایسے ہیں کہ پہننے والی کے جسمانی خدوخال کی آسانی سے جانچ پڑتال ہو سکتی ہے. ان برقعوں کی اوٹ سے جھانکتے جسم کے ابھار اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں اور اس نام نہاد پردے سے جڑا آنچل اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ چھپانے والے اعضاء تک اسکی رسائی ہی نہیں ہوتی. چلیں ہمیں کیا ہم کچھ وہ باتیں کر لیتے ہیں جو برقعے اور ڈوپٹے سے آگے کی ہیں. شادی شدہ عورتوں کی باتیں جو زندگی کے کوئی چالیس سال گزار چکی ہوتی ہیں بچوں کی پیدائش سے فارغ اب انکی تعلیم و تربیت میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ انکو اپنے پہننے اوڑھنے کا بھی ہوش نہیں رہتا. قمیض کی قید سے باہر کی طرف ڈھلکتا پیٹ اور ابھرے ہوئے کولہے جن کو مزید نمایاں کرتی ہیں انکی ق