ہیجڑے
کھسرا, ہیجڑا, جناناں, خواجہ سرا یا کراس جینڈر ایسے الفاظ ہیں جو ہمیشہ تحقیر یا ہتک کے اظہار کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں. کتنا عجیب ہے ناں کسی انسان کو اسکے حصے کی عزت صرف اس وجہ سے نہ دینا کہ وہ مرد یا عورت کے جسمانی معیار پہ پورا نہیں اترتا. میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ کیسے لوگ ہیں یہ جنکو انکا پیدا کرنے والا بھی نہیں جانتا. قرآن میں اسکا مخاطب بس مرد اور عورت رہے ہیں جبکہ یہ تیسری ان دونوں کے بیچ کی چیز کبھی اسکی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی. مگر پھر میری نظر سے ایک امریکی ریسرچر Harry Klinefelter کی 1942 میں کی گئی تحریر گزری. جس میں ایک بیماری Klinefelter Syndromeکے بارے بات کی گئی تھی جسکے مطابق ہیجڑا کوئی تیسری صنف نہیں بلکہ مرد یا عورت کی ایک جسمانی بیماری ہے. جسکے مطابق X اور Y کروموسومز کی تعداد کی عدم مطابقت کی وجہ سے بچے کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا اور بچہ ابنارمل پیدا ہوتا ہے اس تحریر کے بعد ایسے بچوں کے لیے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ہو گیا. مگر یہ کیا کہ آجکل کھسرا بننے کے لیے اس بیماری کا شکار نہیں ہونا پڑتا. بلکہ سائنس کی مدد سے کوئی بھی مرد ہیجڑا بن سکتا ہے یا کوئی بھی انسان اپنی جنس بدل سکتا ہے جسکی کئی زندہ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جیسا کہ مہک ملک. تاریخ کے اوراق پہ نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ دور چاہے بابل و نینوی کا ہو یا اکبر بادشاہ کا ہیجڑوں کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے. کہتے ہیں کہ بادشاہوں کے حرم مردوں کے لیے علاقہ ممنوعہ تصور کیے جاتے تھے تاکہ حرم میں موجود زوجین کو غیر محرموں کی پہنچ سے محفوظ رکھا جا سکے ایسے میں ہیجڑے چونکہ بے ضرر تصور کیے جاتےتھے لہذا انکو حرم کے اندرونی کاموں پہ معمور کیا جاتا تھا اور بادشاہوں کے درباروں میں بھی انہیں شاطر اور زہین ہونے کی وجہ سے خصوصی حیثیت حاصل تھی. مگر وقت نےکروٹ لی اور انہیں درباروں اور حرم سے نکال کر بدنام چوراہوں میں لا کھڑا کیا. جہاں انکی انڈسٹری نہایت تیزی سے بڑھنے لگی. ہٹے کٹے مرد اس انڈسٹری کا حصہ بننے لگے جس سے لگتا ہے کہ یہ جسمانی کم زہنی بیماری زیادہ ہے. مارکیٹ میں انکی بڑھتی طلب کی وجہ انکے کم ریٹس اور بچے وغیرہ کے جھنجھٹ سے آذادی ہے. کم قیمت میں انکی آفر بڑی ہوتی ہے یہ پہلے مساج کے ذریعے جسمانی تھکن سے رہائی دلواتے اور پھر نفس کی تسکین کا سامان باخوبی کیا جاتا ہے. اگر لفظ کھسرے پہ غور کریں تو لگتا ہے اسکا منبع خصاہ یا خصی ہے جسکا مطلب ہے "خصیے یا فوطے نکال دینا" یا عضو تناسل کاٹ دینا. عام زبان میں اس عمل کو نربان کہا جاتا ہے جسکے تحت مرد حضرات کے جسمانی عضاء کو کاٹ دیا جاتا ہے تا کہ اس میں مردانہ خصوصیات کو ختم کیا جاسکے. عورت جیسے جسمانی ابھار حاصل کرنے کے لیے انجیکشن اور سلیکون کا سہارا لیا جاتا ہے. جوان لڑکوں میں یہ رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے. نہیں معلوم حالات کی تنگی میں روزگار کے آسان طریقے کی تلاش ہے یا پھر جسمانی حسیات کی تسکین جو فرزندان آدم کو اس نہج پہ لے آئی ہے کہ وہ فرزند ہونے کے اوزار ہی گنوا رہے ہیں. اب یہ فیصلہ ہمیں با حیثیت قوم کرنا ہے کہ ایسے لوگوں کی ذہنی اصلاح کر کے انہیں ملکی ترقی کا ستون بنایا جائے یا پھر گھنگھرو باندھ کے انسانیت کی قبر پہ ماتم کروایا جائے.
ذرا سوچیے
مصباح چوہدری
ذرا سوچیے
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment