Posts

Showing posts from March, 2020

خود سے محبت

انسانی زندگی ایک حسین امتزاج ہے فطرت انسان ہے کہ وہ ایک جیسے لمحات میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا. نہ وہ ہمیشہ خوش رہ سکتا نہ دکھی نہ ہمیشہ ہنس سکتا نہ رو سکتا.. بلکہ وہ اکتاجاتا ہے ایک جیسی کیفیت سے. اسے ہمیشہ بدلاو چاہیے ہوتا ہے. ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنے کی چاہ ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ اگر ہماری زندگی کا گراف بنایا جائے تو شاید اچھی موسیقی کے گراف سے بہت ملے گا مگر نئی نسل کا گراف شاید شور کے گراف سے زیادہ ملتا ہو کیونکہ وہ زیادہ فاسٹ ہیں. یا یوں کہہ لیں کہ پورا ٹریڈ سائیکل جیسا گراف ہے جس میں بوم ہے ریسیشن ہے اور ڈپریشن بھی مگر پھر ایک وقت ریکوری کا بھی آتا ہے. یہی اتار چڑھاو سبکی زندگیوں میں ہوتے ہیں اور ہر بندے کی انکو ہینڈل کرنے کی سٹریٹجی مختلف ہوتی ہے. اور ایک کا بوم کسی دوسرے کے ریسیشن یا ڈپریشن سے جڑا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم سب کی زندگیوں میں ہیرو نہیں بن سکتے کچھ لوگوں کے لیے ہم مسیحا ہوتے ہیں تو کچھ کے لیے شیطان.  مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک کا ولن سب کا ولن ہو. آپ جیسے ہیں جو ہیں آپ بہتر جانتے ہیں صرف اتنا یاد رکھیں کہ آپ کسی کے لیے عجیب ہو سکتے ہیں مگر آپ اپنے آپ میں

ادھورے لوگ ادھوری باتیں

تکمیل ہستی کے چکر میں انسان زندگی کے بہت سے سال گزار دیتا ہے کبھی تعلیم کبھی روز گار کبھی محبت ہر در کھٹکھٹاتا ہے مگر پھر بھی کئی راتیں کئی دن اسی ادھورے پن کے احساس کے ساتھ گزرتے ہیں بڑھتی عمر کے ساتھ یہ خلا بھی بڑھتا جاتا ہے. لوگوں کو تکمیلِ ذات کو ذریعہ سمجھ کر آدھا نہ کرنے کا واسطہ دینے والا کبھی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ کتنا مکمل پیدا ہوا تھا.ہر چیز سے بے نیاز..مکمل عقیدے اور مکمل ذات کیساتھ.نہ کوئی ڈر تھا نہ خوف نہ حرص نہ لالچ نہ کوئی گناہ نہ ثواب نہ پانے کی چاہ نہ کھونے کا غم ہر چیز سے ماوری اپنی ہستی کی مستی میں پیدا ہونے والا اپنے آپ میں بالکل پورا تھا اور پھر دنیا کے رنگوں میں ڈھلنے لگا دنیا کا کھارا پن رفتہ رفتہ اسکی مکمل ذات کو چاٹنے لگا ادراک کے پردے چاک ہوئے تو جانا کہ آرزوئے وصل بھی تماشا تھا درحقیقت تو یہ وصل بھی فراق ہے ایک ہجر ہے. اندر کا ہجر ذات کا ہجر اور پھر یہ ہجر ٹھہر جاتا ہے انسان میں. تکمیل ہستی کی آرزو میں ذات بکھر جاتی ہے لوگ خود سے بچھڑ جاتے ہیں اور تب جا کےراز آشکار ہوتے ہیں کہ کیسے روٹی بندے کو کھاتی ہے کیسے سوچ کا کیڑا بندے کو گھن کی طرح اندر سے کاٹتا ہے

اللہ سے رشتہ

دنیا میں سب سے آسان کام اللہ پاک کو راضی کرنا ہے فقط ایک سجدہ ایک بات ایک توبہ اور سمجھیں کہ کام ہو گیا. مگر سجدہ ایسا ہو کہ وہ سامنے ہے اور بات ایسی کہ اسکو پیار آجائے توبہ کے لیے ندامت ایسی کہ وہ ہاتھ تھام لے. اسکی رحمت کو تو شایاں ہی نہیں کہ کوئی اسکی بارگاہ میں آئے اور خالی دامن رہے. جب کوئی اسکے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسکی کریمی کو حیا آنے لگتی ہے اور بندہ یوں نواز دیا جاتا کہ اسکی سوچ بھی نہیں ہوتی. مگر اگر لگے کہ پھر بھی کام نہیں بن رہا تو تھوڑا ایموشنل بلیک میل کریں. محبت کا واسطہ دیں جنکے لیے دنیا بنا ڈالی انکا صدقہ مانگیں تو جھولی چھوٹی پڑ جاتی عطائیں ختم نہیں ہوتیں. مگر اس سب کے لیے خلوص شرط ہے. اگر پانچ وقت کی حاضری نہیں اور اللہ سے بات نہیں ہو پاتی تو اپنا احتساب ضرور کریں کہ کونسا عمل ایسا ہے جو دیوار بنا کھڑا. اللہ سے رشتہ لاڈ والا رکھیں ہمیشہ .کیونکہ لاڈ میں بڑی محبت ہے اور جب یہ محبت ملتی ہے تو جسم بیچ سے نکل جاتا ہے روح بڑی سکون میں آجاتی ہے. حالات جیسے بھی ہوں مایوسی نہیں ہوتی پریشانی نہیں ہوتی...بس محبت ہوتی ہے. پھر اللہ کو آئی لو یو کہیں تو اسکا مسکرانا محسوس ہو

تاریخ دان..

مورخ جب تاریخ لکھے تو چینی قوم کو خراج تحسین پیش کرے گا بتائے گا کہ کس طرح مردانہ وار وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑے اور جیت گئے پھر اٹلی کے لوگوں کو احمق کا خطاب دیتے ہوئے ایران کو مجبور اور لاچار کہے گا. امریکہ کو ناعاقبت اندیش جبکہ یورپ کو سیانہ بتائے گا. پھر پاکستان کی بات کرتے ہوئے بتائے گا یہاں لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے تھے. بظاہر سب اس اللہ کے ماننے والے تھے جو کہتا ہے تحقیق کرو. مجھے ماننے سے پہلے بھی جانو اور پھر مانو. وہی اللہ جو کہتا ہے رات اور دن کے بدل بدل کر آنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں وہ ہاکستانی قوم صرف اللہ کو مانتی تھی مگر اللہ کی ایک نہیں مانتی تھی. وہ اللہ کی آیات کو بس دم درود کے لیے استعمال کرتی یا موت کی آسانی کے لیے یہ جانے بغیر کے یہ زندگی گزارنے کا طریقہ ہے. تاریخ دان اس قوم کو جاہل مطلق لکھے گا اور بتائے گا کہ وبا کے آنے پہ تحقیق کی بجائے انہوں نے افواہوں پہ کام کیا. دوائیں بنانے کہ بجائے منتیں مانی. اور قرآن پہ عمل کی بجائے اسکی آیات کو بیچا اور عمل سے خالی دامن میں اپنی مرضی کے فتوے صادر کرتے رہے. مورخ یہ بھی بتائے گا کہ پاکستانی لوگ کبھی ایک قوم نہیں بنے

شناسا اجنبی

کبھی کبھی کوئی ہمارے قریب ہوتا ہے اتنا قریب کہ ایسا لگتا کہ ہم دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہوں. مگر جب محبتیں بدلتی ہیں لفظوں کے تیروں سے خالص جذبوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بدگمانی کی قینچی سے محبتوں کے پھولوں کو کاٹا جاتا ہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا نہ کوئی احساس نہ رشتہ اور یہی اصل موت ہوتی ہے تب دل میں کسی کے لیے اچھائی یا برائی کا کوئی جذبہ باقی نہیں رہتا قربت میں بھی دوری کا احساس برقرار رہتا ہے اور صدیوں کا شناسا کسی اجنبی سے زیادہ اجنبی لگنے لگتا ہے. تبھی ہم جانتے ہیں لازم و ملزوم کوئی نہیں ہوتا. ہم اپنی خودی کی مستی میں بس اپنی خاطر ہی جیتے ہیں...... ✍🏻مصباح چوہدری

کرونا اور ہم

پچھلے کچھ دن سے ہر طرف کرونا کے سبب پوری دنیا کے لاک ڈاون ہونے کا شور سنائی دے رہا ہے فیسبک وٹس ایپ انسٹا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ہر کوئی پورے زور و شور سے احتیاطی تدابیر کی تبلیغ کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے. کچھ تو احتیاط کی ڈگڈگی بجا کر بڑے اہتمام سے اپنے ٹوٹکوں کا منجن بھی بیچ رہے ہیں.سکول کالج یونیورسٹیز شادی ہال سب بند ہوگئے جو کہ بچاو کا بہت اچھا عمل ہے تاکہ بیماری نہ پھیلے.. میں بہت خوش تھی کہ اب تو کرونا کا باپ بھی یہاں نہیں پھیل سکتا.. اسی خوشی میں ذرا بارش کو انجوائے کر لیا فرج سے ٹھنڈا دودھ نکالا سٹرابری کا ملک شیک بنایا اور بڑے پیار سے بارش کی بوندوں میں بھیگتے گھونٹ گھونٹ ملک شیک کا چسکا کیا..مگر نگوڑے بخار نے دھر لیا گلا بھی خراب ہو گیا..تو سوچا دوائی لے آوں.. مگر ویران بازاروں کا سوچ کے کلیجہ منہ کو آنے لگا..دوائی لانے کے لیے جیسے ہی گھر سے باہر قدم نکالا دس پندرہ بچے گلی میں کرکٹ کھیلتے دکھائی دیے.. ہاتھوں میں قلفیاں اور برف کے گولے پکڑے دوسرے ہاتھ سے گیند پکڑنے کی کوششوں میں سرگرم.. میں نے سوچا بچے ہیں چلو کوئی بات نہیں پاوں ننگے ہیں تو کیا ہوا اپنی ہی گلی ہے. نہیں

جمعہ مبارک

اللہ سے رشتہ ہمیشہ ایسا ہونا چاہیے کہ جب جب ہم رجوع کریں وہاں سے جواب آئے. رات کی تاریکی میں جب سب سو رہے ہوں تو دل کرے اللہ سے باتیں کرنے کو تو وہ سنے ہماری بونگیوں پہ اسکی ہنسی گونجے ہماری لڑایئوں پہ اسکو پیار آئے پھر ساری باتیں ہم کر جائیں سارے گلے شکوے سارے شکر ادا کر لیں.. باتیں کرتے جھگڑا کرتے پیار کرتے تھک کے بے سود اللہ کے پاس ہی سو جائیں اور یقین رکھیں کہ وہ پاس ہے اتنا پاس کہ دھڑکنیں بھی اسکے پرے سنائی دیتی ہیں. دن کے اجالے میں کی جانے والی شرارت پہ بھی اسکے دیکھنے کا یقین ہو اور اسکو آنکھ مار کے کہیں مذاق ہے یار..اور اسکی جوابیہ مسکراہٹ اردگرد کی ہر چیز چمکا دے.اور کہے پاگل ہو تم بھی.... ایسا رشتہ ہو اللہ سے ایسا ساتھ جس میں ساری زندگی اللہ کی واحدانیت اور اسکے رحیم ہونے کے یقین کے ساتھ گزر جائے.. جمعہ مبارک مصباح چوہدری

عورت مارچ

آجکل ایک نعرہ زبان ذدِ عام ہے "میرا جسم میری مرضی" .. بات تو ٹھیک ہے اور ماننے والی بھی. کہ جسم میرا ہے تو حق بھی میرا ہی ہو گا.جب اللہ پاک نے ہم سب کو آذاد پیدا کیا ہے تو کسی کو حق نہیں کہ وہ ہمیں غلام بنا کے رکھے. مگر رکیے..یہاں غلام کون ہے؟ اور کہاں ہے؟ وہ عورت جو گھر میں رہ کر کھانا بناتی ہے بال بچے پالتی میاں اور سسرال کی خدمت کرتی باپ بھائی بچوں کو دیکھتی؟؟ اگر یہ غلامی ہے تو میرا خیال ہے ایسی غلامی پہ ناز ہونا چاہیے..کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں وہی مرد جو سارا دن خدا معلوم کس کس کی غلامی کر کے عورت کو بہت ساری غلامیوں سے بچاتے ہوئے گھر کی وزیر اعظم بنا کے رکھتے وہ تو بس حکم دیتی ہے یہ لا دو وہ لا دو کبھی سوچتی بھی نہیں کہ لانے والا کہاں سے اور کیسے لائے گا. میں سوچتی ہوں کہ اگر کبھی ان مردوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا جسم ہماری مرضی تو کیا ہو گا؟؟؟ عورت وہ جو حیا کی چادر اوڑھے آج بڑے مان کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے باپ بھائی شوہر کے ساتھ سینہ تان کے چلتی ہے وہ کس کے سایہ میں پناہ تلاش کرے گی؟؟ کیونکہ عورت حیا کی چادر میں اپنے جذبات چھپا سکتی ہے مگر اگر مرد رشتوں کی چادر اتار پھینکے

محبتوں کی ہانڈی

کچھ لوگ اچانک ہماری زندگیوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اپنی چاہت سے دل کی ویران دھرتی پر محبت کے پھول کھلانا چاہتے ہیں. کبھی کبھی تو ان کی اس جلد بازی پہ شک ہونے لگتا ہے. کیونکہ محبتوں کی ہانڈی تو خلوص, ریاضت اور عزت کے مصالحوں سے ارمانوں کی ہلکی آنچ پہ پکتی ہے. آنچ زیادہ تیز ہو تو زائقے بدل جاتے ہیں. من بھرنے لگتا ہے. پھر دوریاں بڑھنے لگتی ہیں آخر بدگمانی کا تڑکا ساری ہانڈی زہریلی بنا دیتا ہے. تو ساتھ رہیں اس احساس کے ساتھ کہ ہمیشہ رہنا ہے. بھروسے عزت اور یقین کا ذائقہ دھیرے دھیرے آتا ہے مگر رہتا ہمیشہ ہے. اور جو ایک بار اس ذائقے کا عادی ہو جائے کوئی چٹخارہ اسکو اپنی طرف راغب نہیں کر سکتا..پھر آنگن کے سارے پھول صرف ایک ہی محبوب کے لیے رہتے ہیں