عورت مارچ
آجکل ایک نعرہ زبان ذدِ عام ہے "میرا جسم میری مرضی" .. بات تو ٹھیک ہے اور ماننے والی بھی. کہ جسم میرا ہے تو حق بھی میرا ہی ہو گا.جب اللہ پاک نے ہم سب کو آذاد پیدا کیا ہے تو کسی کو حق نہیں کہ وہ ہمیں غلام بنا کے رکھے. مگر رکیے..یہاں غلام کون ہے؟ اور کہاں ہے؟ وہ عورت جو گھر میں رہ کر کھانا بناتی ہے بال بچے پالتی میاں اور سسرال کی خدمت کرتی باپ بھائی بچوں کو دیکھتی؟؟ اگر یہ غلامی ہے تو میرا خیال ہے ایسی غلامی پہ ناز ہونا چاہیے..کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں وہی مرد جو سارا دن خدا معلوم کس کس کی غلامی کر کے عورت کو بہت ساری غلامیوں سے بچاتے ہوئے گھر کی وزیر اعظم بنا کے رکھتے وہ تو بس حکم دیتی ہے یہ لا دو وہ لا دو کبھی سوچتی بھی نہیں کہ لانے والا کہاں سے اور کیسے لائے گا. میں سوچتی ہوں کہ اگر کبھی ان مردوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا جسم ہماری مرضی تو کیا ہو گا؟؟؟ عورت وہ جو حیا کی چادر اوڑھے آج بڑے مان کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے باپ بھائی شوہر کے ساتھ سینہ تان کے چلتی ہے وہ کس کے سایہ میں پناہ تلاش کرے گی؟؟ کیونکہ عورت حیا کی چادر میں اپنے جذبات چھپا سکتی ہے مگر اگر مرد رشتوں کی چادر اتار پھینکےتو اسکی برہنہ سوچ بیچ چوراہے عورت کو ننگا کھڑا کر دے. اللہ نے ہم سب کو بنایا ہے ہمارے راستے مقرر کیے کچھ کام مرد اور کچھ عورت کے لیے رکھ چھوڑے اور دونوں اگر وہی کام کریں جو عین فطرت پہ ہیں تو ٹکراو ممکن ہی نہیں. سمجھ سے بالاتر ہے کہ مسئلہ کہاں ہے جب دونوں لازم ملزوم ہیں تو پھر جنگ کیونکر؟؟ اگر مسئلہ حقوق کا ہے تو مرد بھی اس معاشرے میں اتنا ہی پستا جتنا کہ عورت.. جانور عورتوں میں ہو سکتے اور مردوں میں بھی.. جہاں زینب کی لاش کو درندے نوچتے ہیں وہاں احمد بھی تو زیادتی کا شکار ہوتا ہے. تو پھر عورت مارچ ہی کیوں؟؟ ہمارے دین میں حقوق و فرائض بتا دیے گیے ہیں تو مجرم ہر وہ انسان ہے جو ان سے رو گردانی کرے..بھلے مرد ہو یا عورت ایسے میں یہ چیخ و پکار کیونکر؟؟ کبھی سوچا ہے وہ پابندیاں اور وہ گھرجنکو ہم بیبیاں سلاسل سمجھتی ہیں کتنے اہم ہیں ہمارے لیے. جہاں عورت کسی کی ماں بہن بیٹی یابیوی ہے..مگر گھر سے باہر وہ کون ہے؟ سکول و کالج میں طالبہ مگر روزگار میں نوکر. وہاں اسکی پہچان اسکے اپنے وجود سےہے اسکی اپنی ذات سے. اور سب سے زیادہ برائیاں تبھی ہوتیں جب اسکی پہچان وہ خود بنتی کیونکہ وہاں ہر عورت مضبوط نہیں رہ پاتی.. بہت ساریوں کے قدم ڈگمگاتے اور تھامنے والے وہ مرد ہوتے جو کبھی انسان اور کبھی بھیڑیئے بن جاتے. کیونکہ جہاں عورت علماء اور انبیاء کی جنم دیتی ہے وہیں اسکی کوکھ سے ابو جہل نمرود اور فرعون بھی جنم لیتے ہیں. یہ محبت کی داسی ہے اور جب جب کوئی نمرود اپنی محبت کی آگ سے اسکے موم جیسے دل کو پگھلانے کی کوشش کرتا ہے یہ پگھل جاتی ہے اور پھر عزت دولت غیرت سب کو نیست و نابود کرتی اپنے پیروں تلے روندتی بس نفس کی تسکین کے لیے اندھا دھند بھاگتی ہے. کبھی سوچیں اگر گھر کی چھت پہ باپ کا شفقت بھرا سایہ نہ ہو اور ڈوپٹہ اوڑھانے والے بھائی نا ہوں تو معاشرے کے گدھ نوچ نہ کھائیں ان تتلیوں کو. اور یہ یوں انکے جال میں پھنسیں کہ سوشل میڈیا پہ ہونے والی ساری ڈیجیٹل حرامزدگی سر عام ہو. اور ہر روز کسی نا کسی چوراہے پہ کوئی نامولود کسی کی دلپشوری کی داستان رقم کر رہا ہو.
ہم اگر غلط ہیں تو من حیث القوم غلط ہیں ہمیں صحیح بھی ہم نے کرنا ہے. ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھال کہ نہیں ایک دوسرے کو عزت دے کر. کیونکہ میرا باپ, بھائی یا شوہر اپنا سالن خود گرم کر سکتا ہے مگر مجھے اس سالن کو اپنے خرچے پہ پکانے اور کھانے کے لیے شاید کسی کا بستر گرم کرنا پڑھ جائے. اپنا آپ پہچانیں اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھایئں مگر خود کو رشتوں کے زیور سے آراستہ رکھتے ہوئے. جس نے ہمیں بنایا اسی نے ہمارے رشتے بھی بنائے ہیں. انکی عزت کریں انکا احترام کریں. کیونکہ یہی حسن دنیا ہے اور یہی سرمایہ آخرت. عزت دیں عزت لیں. مگر خود کو بیچ چوراہے کھڑا کرنا اور نا زیبا الفاظ سے بھرے بینرز اٹھانا عورت کو زیب نہیں دیتا. مرد کو تربیت ہم دیتی ہیں جو ماں بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتی ہے وہی بیٹے کو اسلامی تعلیم دیتے ہوئے بیٹی کا صحیح مقام بھی دلوا سکتی ہے. وہی بہو کو بیٹے کی ملکہ بھی بنا سکتی ہے.. اگر ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کہیں تو ہمیں خود کو بھی دیکھنا ہے... کیونکہ ہم مائیں ہیں پہلی تربیت گاہ.. ہم بہنیں ہیں بھایئوں کی غیرت. ہم بیٹیاں ہیں بابا کے سر کا تاج .. ہم بیویاں ہیں شوہر کے دل کی ملکہ اسکی نسلوں کی ضامن..
سوچ بدلیں... جنت ہمارے پاوں تلے ہے...
✍🏻مصباح چوہدری
ہم اگر غلط ہیں تو من حیث القوم غلط ہیں ہمیں صحیح بھی ہم نے کرنا ہے. ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھال کہ نہیں ایک دوسرے کو عزت دے کر. کیونکہ میرا باپ, بھائی یا شوہر اپنا سالن خود گرم کر سکتا ہے مگر مجھے اس سالن کو اپنے خرچے پہ پکانے اور کھانے کے لیے شاید کسی کا بستر گرم کرنا پڑھ جائے. اپنا آپ پہچانیں اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھایئں مگر خود کو رشتوں کے زیور سے آراستہ رکھتے ہوئے. جس نے ہمیں بنایا اسی نے ہمارے رشتے بھی بنائے ہیں. انکی عزت کریں انکا احترام کریں. کیونکہ یہی حسن دنیا ہے اور یہی سرمایہ آخرت. عزت دیں عزت لیں. مگر خود کو بیچ چوراہے کھڑا کرنا اور نا زیبا الفاظ سے بھرے بینرز اٹھانا عورت کو زیب نہیں دیتا. مرد کو تربیت ہم دیتی ہیں جو ماں بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتی ہے وہی بیٹے کو اسلامی تعلیم دیتے ہوئے بیٹی کا صحیح مقام بھی دلوا سکتی ہے. وہی بہو کو بیٹے کی ملکہ بھی بنا سکتی ہے.. اگر ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کہیں تو ہمیں خود کو بھی دیکھنا ہے... کیونکہ ہم مائیں ہیں پہلی تربیت گاہ.. ہم بہنیں ہیں بھایئوں کی غیرت. ہم بیٹیاں ہیں بابا کے سر کا تاج .. ہم بیویاں ہیں شوہر کے دل کی ملکہ اسکی نسلوں کی ضامن..
سوچ بدلیں... جنت ہمارے پاوں تلے ہے...
✍🏻مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment