Posts

Showing posts from January, 2020

پرانی مڈھی

پرانی مڈھی نہیں معلوم کے اس اڈے کا نام کیا تھا مگر وہاں لوگوں کی گہما گہمی تھی اڈے کی دکانوں سے ذرا پرے لوگوں کے ہجوم سے چند قدم کے فاصلے پر لکڑی کی مڈھی دھند اور نمی سے جیسے سکڑی سہمی اداس بیٹھی تھی اسکی اداسی کا اثر ہر چیز پر نمایاں تھا تبھی تو قہقہے بکھیرتے منچلے بھی اس سے دور کھڑے تھے کہ کہیں اداسی کا رنگ ان بھی نہ چڑھ جائے.. اس سے بات کرنے پہ اسکے دکھ کا اندازہ ہوا اس نے بتایا کہ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے وہ ایک تناور درخت تھا زندگی سے بھرپور درخت جو خوراک بنانے کے لیے پانی اور روشنی تو قدرت سے لیتا مگر انسانوں کو آکسیجن فری میں دیتا انکی زمینوں کو مزید زرخیز کرنے کے لیے اپنے پتوں کی کھاد دیتا اور ابن انسان کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے انکی آلودگی کو اپنے اندر سمیٹ لیتاتھا.اس نے بتایا کہ "مجھے وہم تھا کہ میں انسان کے لیے بہت اہم ہوں مگر چند ہی دن بعد میرا اہم ہونے کا وہم ختم ہو گیا میری چھتر چھایہ میں بیٹھنے والا میری چھوڑی گیس سے سانس لینے والا میرے وجود سے تنگ آ گیا لہذا آرا لیے مجھے کاٹنے آ پہنچا میں بہت رویا مگر ابن انسان کو ترس نہ آیا میرا پتا پتا نوچا گیا میری

راضی با رضا

محبت میں ساتھ کے لیے کبھی اللہ سے ضد نہ کرو کیونکہ اللہ سب کی محبتوں کو ہم سے بہتر جانتاہے اگر جذبہ وقتی ہوا محبت نہ ہوئی یا محبت کرنے والے بدل جائیں تو ساری زندگی محبت کی نعش کندھوں پہ ڈال کے چلنا زندگی محال کر دیتا ہے. اسلیے اللہ پاک سے صرف وہ مانگو جو آپ دونوں کے حق میں بہتر ہو..کیونکہ بہتر مل جائے تو نہ ملنے والے پہ صبر آ ہی جاتا ہے..مگر اللہ پاک سے ضد کر کے مانگا ہوا مانگنے سے بھی نہیں ملتا اور مل بھی جائے تو بہتر نہیں رہتا

قطعہ

ہم جو روتے ہیں تم بھی رو دوگے دامن اشکوں سے یوں بھگو دو گے دار فرقت میں ہاتھ تھامنے والے.. کبھی فرصت ملی تو ہمکو کھو دو گے. م....

بارش کا موسم اور یاد ماضی

بارشوں کی خاصیت ہے کہ یہ جب بھی آتی یادوں کی پٹاری ساتھ اٹھا لاتی... پھر جہاں بوندیں بادلوں سے گرتے زمین پہ دم توڑتی ہیں وہیں کچھ موتی پلکوں کے بندھ توڑ رخساروں کے ریگزاروں کا سفر کرتے اپنا وجود ختم کر لیتے ہیں... خدا جانے ان بادلوں سے بچھڑ جانے والوں کا رشتہ کب سے ہے اور کب تک رہے گا.... ہاں مگر جب جب بادل گِھر آئیں گے تب تب وہ سب دوست جنکے ساتھ رم جھم بوندوں میں انجان رستوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ سنتے پھولوں کی خوشبو سے معطر سفر پہ قہقہے بکھیرنے کی حسرت کی ہوتی وہ یاد آنے لگتے.... اب ایسے موسم میں وہ دوست نہیں آتے بس انکی یاد ہوتی اور شامیں اداس ہوتی🌧😢

عورت کا ایک روپ۔...ہاں میں طوائف ہوں....

ہاں میں طوائف ہوں! بظاہر میرے خدوخال عورت سے ملتے ہیں مگر میں اسکے جیسی نہیں ہوں. میرے اور اسکے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے وہ صدیوں سے مجھے اپنا دشمن مانتی ہے اسکو لگتا ہے میں اس سے اسکا شوہر بیٹا باپ چھین لیتی ہوں اسکے سر کا تاج میرے تلوے چاٹتا ہے  اسکے حصے کا رزق کاٹ کر میرے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے میرے ناز نخرے اٹھاتا ہے مجھے عیاشی کرواتا ہے. مگر وہ پاگل کب سمجھتی ہے کہ میں ہی تو ہوں جو اسکی عزت اور اسکا گھر محفوظ بناتی ہے اسکے شہر سے اگر میرا وجود نکال دیا جائے تو وہ جوبڑے اطمینان سے بڑے غرور کے ساتھ بازاروں میں دندناتی پھرتی ہے اسکا چلنا محال ہو جائے وہ عزت داری اور پارسائی جسکا اسکو مان ہے ایک لمحے میں خاک نشیں ہو جائے. وہ میری تربیت اور تہذیب پہ ہمیشہ انگلی اٹھاتی ہے کیونکہ شاید وہ تاریخ کے اس باب سے نابلد ہے جب شریف زادے ادب و آداب سیکھنے کے اپنے شہزادوں کو میرے کوٹھوں پہ بھیجا کرتے تھے. مگر میں اسکو جتلانا نہیں چاہتی. میں چاہتی ہوں اسکا بھرم قائم رہے. وہ مجھ سے نفرت کرے شدید نفرت. کیونکہ مجھ سے نفرت ہی اسکے رشتوں کو بچاتی ہےوہ میری نفرت میں اپنے مرد کی بیوفائی و بے حیائی د

ریپ

ریپ کہنے کو لفظ لکھنے کو ایک سوچ سہنے کو نری موت اور حقیقت میں پوری انسانیت کے تن سے عزت کا لباس اتار پھینکنا اور اسکو برہنہ کرکے کسی چوراہے میں لا کھڑا کرنا ہے... اس مملکت خداداد میں ہر روز انسانیت کسی کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہے بچیاں بچے کوڑے کے ڈھیروں سے کماد کے کھیتوں سے راجبے کی ریتوں سے نہروں کی پلوں سے ہوس کے پنوں میں لپٹے ملتے ہیں عدالتوں کے چیمبر تھانوں کی جیلیں اور اسپتالوں کے مردہ خانے تک اس جسم کی بھوک سے محفوظ نہیں ہیں..... یہ کس راستے کو اختیار کر لیا ہے ہم نے؟؟اسکی منزل کیا ہوگی ؟؟؟ بچے عورتیں جو جنگ کے دنوں میں بھی محفوظ سمجھے جاتے تھے آج اپنے گھروں میں محلوں میں محفوظ نہیں ہیں.... کیوں؟؟؟ کوئی مجرم پکڑا جائے تو سزا ملنے میں اتنا عرصہ لگ جاتاہے کہ اس میں کئی اور واقعات ہماری کہانیوں میں شامل ہو جاتےہیں...اور کیا اس فرد واحد کو سزا دینا کافی ہے؟؟ مجھے لگتا ہے کہ نہیں کیونکہ کسی واقعہ کی منزل تک پہنچنے والا مجرم کئی راستوں سے ہو کر گزرتا ہے جب ان راستوں پہ پہرہ نہیں ہو گا لوگ ایسی منزلوں تک پہنچتے رہیں گے انسانیت بے بس سے لٹتی رہے گی.. یہ وہی راستے ہیں جن براجمان ہیں

قوم کا مستقبل

کہتے ہیں کہ بچے کسی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور وہ بچے اگر طالبعلم بھی ہوں تو ان سے جڑی امیدیں مزید بڑھ جاتیں اور سنہرے مستقبل کے خواب اور سنہرے ہونے لگتے... ایسی ہی کچھ سوچیں کچھ امیدیں لیے میں بھی یونیورسٹی تک کے سفر میں تھی.. کہ انبیاء کے وارثوں کا ٹولا نظر آیا کوئی ڈاکٹر کوئی وکیل اور کوئی استاد دکھائی دینے لگے مگر یہ منظر زیادہ دیر تک خوبصورت نہیں رہا کیونکہ بچل پڑی اور گاڑی چلتے ہی وہ سارے معمار بھاگم بھاگے گاڑی کی طرف لپکے.. کنڈیکٹر اور سواریوں کا رویہ انتہائی ہتک آمیز تھا..  ماتھے پہ بل ڈالے اور انکو پیچھے دھکیلتے ہوئے فیصلہ ہوا کہ ان سب کو گاڑی کی چھت پہ جگہ دے دی جائے.. بچوں کا جذبہ انتہائی دیدنی اور انداز سے کافی محنتی اور جنگجو لگ رہے جبھی تو آنًا فاناً گاڑی کی چھت اورگاڑی کے اندر گھسنے میں کامیاب و کامران رہے... بڑی خوشی ہوئی کہ چلو انکو منزل تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ تو ملا... مگر انہیں کھڑا دیکھ کر اپنا آپ بڑا چھوٹا لگا..دل چاہا کہ کھڑی ہو جاوں اور انکو ادب و احترام کے ساتھ اپنی سیٹ پیش کر دوں مگر پھر خیال آیا کہ یونیورسٹی کافی دور ہے اکیلی لڑکی سب لڑکوں درمیان کھڑی بری لگ

ایک اور گھر اجڑ گیا

ایک اور گھر اجڑ گیا میری دادی اماں بتایا کرتی تھیں کہ انکے بچپن میں جب کہیں کوئی قتل ہوتا یا کسی کی طلاق جاتی تو آسمان پر ہر طرف لالی چھا جایا کرتی تھی اور سرخ آندھی ہر شے کو اپنے رنگ میں رنگ دیا کرتی تھی کئی گھروں میں دکھ اور سوگ کا عالم یہ ہوتا کہ کئی کئی دن تک چولھا نہ جلتا تھ انہی گھروں میں جہاں بیٹی اجڑ کے آجائے یا کسی کا ناحق خون بہہ جائے..مگر آج تو اندھی گولی کب کس کا مقدر بن جائے کوئی نہیں جانتا اور بیٹی کب سسرال چھوڑ کے میکہ بسا لے یا بیٹا مار پیٹ کر کے کب بیوی کو طلاق دے کر چلتا کر دے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا اور حیرت صد حیرت یہ کہ انکا دکھ آسمان تک تو کیا دوسرے گھر تک نہیں پہنچ پاتا..شادی کے بندھن میں بندھتے ہی لڑکی لاکھوں خواب آنکھوں میں سجائے پیا دیس بسانے آجاتی ہے..اب اسکو لگتا ہے کہ یہاں اسکی حکومت ہونی چاہیے وہ اس گھر کی ملکہ ہے اور باقی سب اسکی رعایا اور اس عہدے کے چکر میں وہ اپنے بادشاہ کو بھی اکثر غلاموں میں شامل کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف سسرال کو یہ زعم کہ دلہن آگئی ہے لہذا اب وہ ایسی ملازمہ ہے کہ جو چوبیس گھنٹے کام کر سکتی ہے اور شوہر کو شروع میں بیوی دنیا کی سب س

اللہ سے باتیں

وہ جب بھی ملتا ہے کہتا ہے تم پاگل ہو کوئی اللہ سے بھی لڑائی کرتا ہے بھلا؟؟ ساری دنیا پڑی ہے لڑنے کو... اور تم اپنے خالق سے الجھتی رہتی ہو.... سمجھ نہیں آتی کہ اسکو کیسے سمجھاوں کیسے بتاوں کہ اس لڑائی میں جو مزا ہے وہ کسی اور بحث میں نہیں ہے.... کیسے کہوں کہ میں جب جب جھگڑتی ہوں مجھے اللہ سامنے بیٹھا محسوس ہوتا ہے... میں بولتی ہوں فضول بولتی ہوں ہر چیز کا الزام دیتی ہوں اور کہتی ہوں تیرے بندے ہیں نہ سب.. تیرے ہاتھ میں ہے ناں تو پھر کیوں میرے حصے میں یہ سب کچھ ہے..تو وہ ناراض نہیں ہوتا بلکہ میری نادانیوں پہ مسکراتا محسوس ہوتا...  بس اسی ایک مسکراہٹ کو میں ہر بار لڑتی ہوں.. اور ہر بار وہ مسکرا کر میرے غم غلط کر دیتا ہے... پھر جی اور مچلتا ہے اور لڑائی کا دل کرتا کہ شاید بات ابکی بار مسکراہٹ سے بڑھ جائے... اب پھر سے ہم دوست بن جائیں پھر سے میں آدھی رات کو جاگوں پھر سے پہروں ہم باتیں کریں اور تھک کے اسکی آغوش میں مزے سے سو جاوں... دل چاہتا ہے وہ جو ہر شے میں عیاں ہے وہ باتیں کرے..  پودوں سے جھانکتا خوشبو میں رچا بسا.. پرندوں میں شور کرتا درختوں کی بانہوں سے مجھے چھوتا بادلوں کی اوٹ سے جھان

ریاست

کہتے ہیں کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور اسکا سربراہ باپ کی مانند.. لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کر کے ایسے شخص کو سربراہی کا تاج پہناتے ہیں جو انکے تحفظ کا ضامن ہو. جو ترقی کی منازل کی طرف سبکی راہنمائی کرسکے. جسکی چھایا میں انسان حیوان یہاں تک کہ چرند پرند بھی خود کو محفوظ تصور کریں.. ریاست کا کوئی ایک باسی کوئی جیت حاصل کرتا ہے تو ساری ریاست اس پہ ناز کرتی ہے ایک فرد ایک ٹیم کی جیت کو پورے ملک کہ جیت سمجھا جاتا ہے مگر اسی ریاست میں جب میر حسن کراچی میں فاقوں سے تنگ آکر خود سوزی کی کوشش کرتا ہے جو بعد میں اسکے لیے خودکشی ثابت ہوئی..حالات سے مجبور ماں بچوں کو پیٹ کے ساتھ باندھ کر دریا میں چھلانگ لگا دیتی ہے کیونکہ کھانے کو کچھ نہیں تھا.. بھوک و افلاس کا شکار باپ چار بچوں کے گلے کاٹ دیتا ہے..زمانے کے رواجوں سے تنگ بیٹیاں باپ پر بوجھ بننے کی بجائے موت کی نہر میں چھلانگ لگا دیتی ہیں یہ اور ان جیسے ان گنت واقعات روزانہ حقیقت کے زناٹے دار طمانچے انسانیت کے منہ پہ مارتے ہیں اس ریاست کے ٹھیکے دار کا مزاق اڑاتے ہیں ان نمائندوں کو منہ چڑاتے ہیں جو عوام کو سہولیات دینے کے لیےحلف اٹھاتے ہیں اس ممتا

قطعہ

روز ملتی ہے مگر نہیں ملتی زندگی کسی طور بھی نہیں ملتی لوگ ملتے ہیں سمجھ کر اپنا خوشی مگر دیدنی نہیں ملتی... مصباح چوہدری

راہ ہدایت

ھُدًی لِلمُتَّقِین وہ بلند مرتبہ کتاب کہ جس میں غلطی کی گنجائش نہیں...اس میں ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے........... آیت آنکھوں کے سامنے تھی..قرآن کھلا تھا مگر کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا. دماغ کے کسی کونے سے آواز آئی کہ یہاں تو مخاطب متقی ہے یہ پیغام یہ بلاوا تو پرہزگاروں کے لیے ہے..... نفس کو جوش آیا شیطان جو نہ جانے کب سے اسی طاق میں بیٹھا تھا کہ بھٹکا سکے..فوری بول اٹھا کہ یہ تو کھلی اقربا پروری ہے.. عام انسان تو خطا کا پتلا ہے وہ کم علم ہے کم عمل ہے.. نہ عقل ہے نہ سمجھ اور نہ پرہیز گاری کا دعوی......کیونکہ وہ تو لمحہ لمحہ سانس سانس بھٹکتا ہے. متقی کیسے ہو سکتا؟؟؟. سوال در سوال جواب در جواب ایک شور ایک عالم ہو... سر دکھم دکھم... تبھی دل کے کسی کونے سے صدا بلند ہوئی کہ پتہ تو کر یہ متقی ہوتے کون لوگ ہیں؟؟ بس پھر دل کی آواز پر لبیک کہا.. تبھی جا کہ سمجھ آیا کہ ہر وہ انسان متقی ہے جو خود کو دوسروں سے برتر نہ سمجھے...حرام چیزوں کو ترک کرنے والا اور فرائض کی ادائیگی کرنے والا متقی ہے..غرور سے منہ موڑنا بھی پرہیزگاری.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ اکرام کی پیروی کرنے والا بھی

محبت کا حق

اس نے کہا کہ آنکھوں کے حلقے چہرے کی جھڑڑیاں تمہارے چہرے کی بشاشت کو کم نہیں کر پایئں بلکہ تمہیں پہلے سے زیادہ جاذب نظر اور معتبر بنا رہی ہیں پہلے فقط آنکھوں کو بھلی لگتی تھی اب تو سیدھی دل پہ لگتی ہو ان چند سالوں میں ایسا کیا پا لیا ہے کہ بولو تو باتوں سے خوشبو آتی ہے.. چلو تو یوں لگتا ہے کہ پاوں جیسے طواف میں ہیں..دیکھو تو ایسا محسوس ہو کہ نظر اندر تک پڑھ جائے.. ہاتھ اٹھاو تو تقدیر بدلنے کا یقین ہونے لگے..کونسا اسمِ عظیم آجکل وردِ زباں ہے.....جواب آیا محبت کو جب سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہے دل سنورنے لگا ہے محبوب کے رنگ میں جب سے رنگی ہوں سارے زنگ اتر گئے ہیں.جب سے دل کے آنگن میں انکا بسیرا ہوا ہے جبیں انکے قدموں میں دھرے رکھتی ہوں خواہشیں آرزویئں انکا طواف کرتی ہیں.. زبان انکی تلاوت کرتی نہیں تھکتی.. آنکھیں انکے خوابوں کے سحر سے باہر نہیں آتیں...دل انکی عبادت میں مصروفِ عمل ہے.... اس نے کہا کہ تمھیں ڈر نہیں لگتا؟ جواب آیا کہ لگتا ہے ناں...انکو کھونے کا ڈر.. انکی ناراضگی کا ڈر.... انکے انکار کا ڈر انکے سامنے شرمندگی کا ڈر... اس نے پوچھا اللہ سے ڈر نہیں لگتا اسکو چھوڑ کسی کی ریاضت میں را

معافی..ظرف اور اپنے

معاف کرنا آسان ترین عمل ہے مگر کسی کی زیادتی کو بھول جانا مشکل ترین کام.... ہم ہر ظلم ہر زیادتی جسکا تعلق ہماری ذات سے ہو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں مگر کوئی ظلم ہمارے اپنوں ساتھ ہو تو جب جب ہم اپنوں کو اذیت میں تکلیف میں مبتلا دیکھتے ہیں تب تب دل نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں پریشان کرنے والوں کو معاف نہیں کر پاتا انکی بہتری کی دعا بھی کریں تو دل آمین نہیں کہہ پاتا. کہیں اندر بہنے والے آنسو پتہ نہیں کیوں چاہتے ہیں کہ اپنوں کو تکلیف دینے والے بھی بےسکون و بے قرار رہیں وہ محبت جسکو انہوں نے اپنی خود غرضی کہ وجہ سے ٹھکرایا ہے ساری زندگی اسکی تلاش میں در در بھٹکتے پھریں مگر وہ نصیب نہ ہو. پتہ نہیں اسکو کم ظرفی کہا جائے یا اپنوں سے لگاو مگر حقیقت یہی ہے اپنوں کا دکھ اپنے دکھ سے زیادہ تکلیف دیتا ہے

سردیوں کی رات اور امید کے جگنو

عجیب باتیں رات وہ بھی سردیوں کی ایک طویل مسافت نئی صبح کے انتظار میں پتہ نہیں انسان کتنی بار جیتا ہے کتنی بار مرتا ہے سفر ختم ہی نہیں ہوتا...کتنا اچھا ہو کہ رات جب عین جوبن پہ ہو اسکے سر سے کوئی اندھیرے کی چادر کھینچ لے تو اسکی وحشت کے پلے کیا رہ جائے گا؟؟ یہ جو تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اپنے نرم گرم بستروں پر خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں انکی آنکھیں چندھیا جائیں گی انکے خوابوں کا شیرازہ بکھر جائے گا.. یہ بھی اسی اذیت کا شکار ہو جائینگے انکا درد محسوس کرنے لگیں گے..... جنکی راتیں نیند سے خالی ہوتی ہیں جو زمین کے بستر پہ مفلسی و ذمہ داری کا لبادہ اوڑھے ساری رات پیٹ کے دوزخ کی آگ میں جلتے ہیں اسی کا مزا لیتے ہیں.... جنکی قسمت ان اماوس کی راتوں سے زیادہ تاریک ہے مگر سورج کی ضد میں چمکنے والے یہ ستارے رات کی تاریکی کو سجدہ نہیں کرتے اسکے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے بس ظلمت کے اندھیروں میں آس کے جگنو بن کر اپنے لہو سے امیدوں کے دیپ جلائے رکھتے ہیں..... مصباح

انکا پوچھنا

کتنا سطحی تھا انکا پوچھنا کہ ہمارے ساتھ چلو گی؟؟؟؟ جیسے کوئی بوجھ اتار رہے ہوں جیسے کسی مجبوری میں جکڑے الفاظ محض زبان سے ادا ہو رہے ہوں دل کی خواہش ہو کہ یہ انکار کر دے.......... اور میں انکار کر بھی دیا....... کیا انکو نہیں خبر تھی کہ میرا ہاتھ تھام مان سے کہتے کہ تمھیں لے کے جانا ہے...  پیروں کی کیا جرات تھی سر کے بل چل کے جاتے.. مگر انہیں وہی نہیں کہنا تھا.... جو مجھے سننا تھا.....😔

ٹھنڈا گوشت

Image
کبھی کبھی زندگی بھی اس ٹرین کی طرح لگتی ہے سر سبز شاداب اور روشن... مگر کون جانے باہر کی یہ برف  اندر کی نرمی, گرمی اور نمی سب سوک لیتی ہے..یہ یخ بستگی لہجوں اور جزبات میں اتر جائے تو انسان احساس سے عاری ہو جاتا...سوچ پہ چھا جائے تو مایوسی کی چادر ہر سو اندھیرا کر دیتی اور یہ ٹھنڈک اگر دل جزیرے کے میں گھر کر لے تو جسم بس ٹھنڈے گوشت کا لوتھڑا بن کہ رہ جاتا.... اور ٹھنڈا گوشت نہ پکایا جا سکتا ہے نہ کھایا جا سکتا ہے.....

قلم کی کی زبوں حالی

کہتے ہیں وہ نور جو جہالت گمراہی اور ظلم کے اندھیروں کو  منور کرتا ہے قلم سے نکلتا ہے.... تاریخ گواہ ہے جہاں جہاں تلوار نے سر کاٹے ہیں قلم نے دل جوڑے ہیں... معاملہ ٹوٹے دل, بے وفائی, ہرجائی کی جدائی کا ہو یا جابر حکمران کے سامنے حق کی صدا بلند کرنے کا مظلوم کی آس اور امید قلم ہی بنا ہے یہ اعزاز بھی قلم کو حاصل ہے کہ جہاں اس نے امید کے گلستاں سجائے ہیں وہیں وقت کے یزیدوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ کیفر کردار تک پہنچایا ہے... مگر مٹھی بھر چاپلوسوں اور خود پرستوں نے جب سے قلم کو جھوٹ لکھنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے لکھائی سے خلوص لفظوں سے سچائی اور جملوں سے لکنت چھن سی گئی ہے.. یہی وجہ ہے ہم پچھلے پچاس سالوں میں کوئی غالب میر اقبال فیض مشتاق یوسفی منٹو اشفاق احمد بانو قدسیہ احمد فراز پیدا نہیں کر پائے.. اور افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ اب انکے پڑھنے والے بھی چند سالوں میں ختم ہو جائیں گے.. اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آج قلم میں طاقت نہیں ہے بس لکھاری میں وہ جذبات ماند پڑھ گئے جودلوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے تھے کلمہ حق کی سر بلندی کا درس دیتے تھے ہیں آج کا لکھنے والا اپنے محسوسات ل

ساون کا گماں

یوں اشکوں سے بھیگا ہے میرے گھر کا آنگن کہ پت جھڑ میں بھی ساون کا گماں ہوتا ہے ✍🏻مصباح

شام ڈھلے

کبھی کبھی جی چاہتا ہے شام کے کسی پہر دوستوں کا ساتھ ہو. ہاتھوں میں ہاتھ ہو گرم چائے کی چسکیاں اور باتوں کی سوغات ہو قہقہے گونجیں ہواوں میں اور یادوں کی بارات ہو کبھی کبھی جی چاہتا ہے یونہی شام ڈھلے یونہی وقت کٹے یونہی رات ہو بس دوستوں کا ساتھ ہو مصباح چوہدری

آگاہی اور اعلی ظرفی

لفظوں میں چھپی بات اور انسان میں چھپی ذات اگر سمجھ آنے لگے تو بندہ آگاہی کے دوہرے عذاب میں مبتلا ہو جاتا  ہے ایسے میں اعلی ظرفی ہی وہ واحد کمال ہے جو بہت لوگوں اور ان میں چھپے رازوں کا شیرازہ بکھرنے سے بچاتی ہے... مصباح

امر بیل

کچھ لوگوں کی چاہت امر بیل کے جیسی ہوتی ہے جو ہمیں یوں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے کہ سانس چلتا بھی رہے تب بھی ہم زندہ نہیں رہتے

بارش کی بوندیں

قطرہ قطرہ زمین بوس ہوتی بارش کی بوندیں بظاہر تو فطرت کی محبت کا شاخسانہ لگتیں مگر خدا جانے ان میں کونسے نشتر لگے ہوتے جو ہر بارش میں دل کے زخموں کو ہرا کر دیتے ہیں بچھڑنے والوں کی یادیں چھوڑ کے جانے والوں کے لہجے افلاس کا طرز اور مفلسی کے طعنے ہر بارش میں شدت سے سر اٹھانے لگتے.... اپنے ساتھ زندگی کی روانی اور ڈھیروں فرمائشیں لانے والے ابر رحمت کے قطرے جہاں پکوڑوں سموسوں اور طرح طرح کے لوازمات کی خوشبو میں سنے ہوتے ہیں وہیں چھت سے ٹپکنے والے آنسووں اور گیلی مٹی پر لیٹنے والوں کی سسکیاں کا شور خود میں سمیٹے ہوئے ہوتے...ایسے میں سمجھ نہیں آتی کہ یہ بارش آسمان سے زمین کی محبت کا اظہار ہے یا اہل زمین کہ حالت زار پر اشک شوئی... 😢

شعور کی دستک

Image

امید کی کرن

کبھی کبھی خود ساختہ سوچوں کا جال اسطرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے کہ آس کے جزیرے کی منزل نا امیدی کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگتی ہے.. مگر اگر اللہ پاک کی رحمت پہ یقین ہو تو مایوسی کے جھروکوں سے امید کی سنہری کرنیں چھن چھن کرتی اپنے راستے بناتی ناامیدی کے اندھیروں کو اپنے نور سے منور کرنے لگتی ہیں