ایک اور گھر اجڑ گیا

ایک اور گھر اجڑ گیا
میری دادی اماں بتایا کرتی تھیں کہ انکے بچپن میں جب کہیں کوئی قتل ہوتا یا کسی کی طلاق جاتی تو آسمان پر ہر طرف لالی چھا جایا کرتی تھی اور سرخ آندھی ہر شے کو اپنے رنگ میں رنگ دیا کرتی تھی کئی گھروں میں دکھ اور سوگ کا عالم یہ ہوتا کہ کئی کئی دن تک چولھا نہ جلتا تھ انہی گھروں میں جہاں بیٹی اجڑ کے آجائے یا کسی کا ناحق خون بہہ جائے..مگر آج تو اندھی گولی کب کس کا مقدر بن جائے کوئی نہیں جانتا اور بیٹی کب سسرال چھوڑ کے میکہ بسا لے یا بیٹا مار پیٹ کر کے کب بیوی کو طلاق دے کر چلتا کر دے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا اور حیرت صد حیرت یہ کہ انکا دکھ آسمان تک تو کیا دوسرے گھر تک نہیں پہنچ پاتا..شادی کے بندھن میں بندھتے ہی لڑکی لاکھوں خواب آنکھوں میں سجائے پیا دیس بسانے آجاتی ہے..اب اسکو لگتا ہے کہ یہاں اسکی حکومت ہونی چاہیے وہ اس گھر کی ملکہ ہے اور باقی سب اسکی رعایا اور اس عہدے کے چکر میں وہ اپنے بادشاہ کو بھی اکثر غلاموں میں شامل کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف سسرال کو یہ زعم کہ دلہن آگئی ہے لہذا اب وہ ایسی ملازمہ ہے کہ جو چوبیس گھنٹے کام کر سکتی ہے اور شوہر کو شروع میں بیوی دنیا کی سب سے مظلوم ترین مخلوق جبکہ اپنے ماں باپ بہن بھائی جلاد صفت لگنے لگتے ہیں مگر کچھ ہی دنوں بعد وہی بہن بھائی اور انہی ماں باپ کے پاس بیٹھ کر دنیا کی سب سے فسادی عورت کا رونا رو رہا ہوتاہے..چند دن ایسے ہی چلتے پھر ایک دم لاوا پھٹتا اور بس گھر کا سکون اسی آگ میں جل کر بھسم ہو جاتاہے... یہ آگ اس سوشل میڈیا گیجٹ سے لگتی جو آجکل ہر ہاتھ میں با کثرت دکھائی دیتا ہے لڑکی ہر بات اماں تک خوب مرچ مصالحے کے ساتھ پہنچاتی یہاں ماں سمجھدار ہو تو بیٹی کو اسکی غلطی کا بھی احساس دلاتی,درگزر کا درس دیتی اور محبتوں سے دل جیتنے کا مشورہ دے کر اللہ کے سپرد کر دیتی مگر سب مائیں یہ نہیں کرتیں کچھ بیٹی کے وہ کان بھرتیں کہ شیطان بھی انکے مشوروں کو کان لگا نہ صرف سنتا بلکہ گرو ماننے لگتا اور تباہی کا مزہ لینے کو تیار ہو جاتا..  اور اگر ان باتوں سے بھی گھر نہ ٹوٹے تو موبائل کے باقی فیچرز بھی سامنے آنے لگتے اچانک کسی سوشل میڈیا گروپ سے اپنے کندھے لیے حاضر ہو جاتے اور میاں کو دلاسے الگ بیوی کے لیے ہمدوری الگ..چند دن بعد دونوں کو احساس ہونے لگتا کہ انہوں نے شادی میں جلدی کر دی اصل میچ تو اب ملے ہیں.. جو راتوں کی نیند تیاگ کر ہمارا دکھ بانٹتے ہیں ہر وقت ہمارے آنسو پونچھتے ہیں اور ان باتوں کا اثر عورت پر زیادہ جلدی ہوتا بنسبت مرد.کیونکہ مرد کو کسی حد تک پہلے بھی عادت ہوتی باہر دیکھنے کی..اور عورت تب وہ ہنگامہ کرتی کہ اگر گھر والے نہ مانیں تو باہر کے لوگ ترس کھائیں اور اسکو قید مزلت اے رہائی دلوانے پہنچ جایئں اور پھر گھر کی عزت گھر کی باتیں عدالتوں میں گھسیٹی جاتیں پگڑیاں اچھالی جاتیں اور آخر کار مقصد حیات آذادی کے پروانے کے ساتھ مل جاتا.. ایسا ہی کچھ کل میرے ہمسایہ میں بھی ہوا کہ یکایک بیوی کو گونگے میاں کی باتیں بری لگنے لگیں مار دھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا لڑکی کا موبائل ضبط کرنے پر اسکو آکسیجن کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا اور بہرحال پولیس گواہوں اور رشتے داروں کی موجودگی میں نہایت گالی گلوچ اور الزام تراشی کے پنوں لپٹا آذادی کا پروانہ تھما دیا گیا اور وہ بہت خوشی سے اپنے تین بچے میاں کے منہ پر مار کے نیا گھر بسانے کو تیار اور اپنی کامیابی پہ اتراتی ہوئی چلدی.... اور میں دیر تک سوچتی رہی کہ وہ لوگ جو گھر والوں سے چوری رات کے اندھیروں میں فون پہ چند گھنٹے اس سے بات کر رہے تھے وہ کتنے معتبر ہوں گے؟.. کیا چوری کپڑے اتارنے والے سب کے سامنے عزت کی چادر اوڑھا سکتے ہیں؟؟ گھر سے بے گھر ہونے والی کیا کسی ٹھکانے پہ ٹک پائے گی؟؟ آخر کب تک ہم غیروں کو موبائل سے اپنے گھر میں جگہ دے کر اپنے گھر والوں کو اگنور کرتے رہیں گے؟؟ پھر بہت دیر آسمان کو ٹٹولتی رہی کہ شاید کہیں سے لال ہو.. کوئی خون آلود آندھی میری آنکھوں کو لال کرنے ابھی کہیں سے نمودار ہو جائے مگر دوسری طرف سناٹا تھا..موت کی سی خامشی تھی پھر لگا کہ اب آسمان بادل ہوا سب بے حس ہو چکے ہیں. نہیں شاید اب کے دکھ اور اجاڑے ہمارے خود ساختہ ہیں..شاید ہم غلط ہیں اور غلطیوں پہ قیامتیں نہیں ٹوٹا کرتی بس گھر ٹوٹ جایا کرتے ہیں...😔
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار