Posts

Showing posts from June, 2020

سیاست دانوں کے ڈیرے

سیاست دانوں کے ڈیرے بھی رنڈی کے کوٹھوں کی طرح بڑے بدنام ہوتے ہیں. جسے دیکھو گالیاں دیتا یے. مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو انکی طرف بھاگتا ہر کوئی ہے🤭 مصباح چوہدری

مکافات عمل

ہم لوگ بڑے سمجھدار ہوتے ہیں کسی کے بخار کو مکافات عمل کا نام دے کر اپنی زندگی میں آئے بھونچال کو رب کی آزمائش کہنا خوب جانتے ہیں. مصباح چوہدری

سیاہ بخت

آج کہیں پڑھا کہ سیاہ بخت وہ ہوتا ہے جس کی زبان محبت کے دعووں سے تر ہو. مگر ہاتھ محبت کی لکیروں سے محروم. کتنی سچی بات ہے اور کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی رشتے میں ہم سب سیاہ بخت ہیں. محبت سے خالی ہاتھ بھی چھلنی جیسے ہوتے ہیں جن سے اعتبار, اعتماد, احساس, عزت, تکریم اور احترام سب چھن جاتا. پیچھے رہ جاتا تو دکھوں کا چھان. جسکو جتنی مرضی کوشش کر لیں نہیں چھنتا ہمیں ہمیشہ اس کے ساتھ گزارہ کرنا پڑتا ہے. پھر بھلے صحراوں کی تپتی ریت کو مزید جھلساتی دھوپ ہو کہ ہڈیوں کو جماتی ٹھنڈ ہمارا اوڑھنا بچھونا بس دکھ ہی ہوتے جو کبھی دھوپ کی شدت کو بڑھا کر ہمارا صبر آزماتے ہیں کبھی یخ بستہ لہجوں سے ہمارا ظرف آزماتے ہیں. جو بھی ہو سیاہ بخت اپنے مقدر کی سیاہی اوڑھے زندگی کا سفر کاٹتا ہے. مصباح چوہدری

ڈپریشن

دنیا کے مشکل ترین حالات میں سب سے مشکل خود کو بے یارومددگار پانا ہے. جیسے ہوا میں معلق کوئی پانی کا قطرہ جسکو نہیں خبر کے وہ بھاپ بن رہا کہ برف یا کوئی اگلا ہوا جھونکا اسکی شناخت ختم کرتا ہوا اپنے ساتھ اڑا لے جائے گا یا پھر کشش ثقل کے باعث منہ کے بل زمین پہ آ گرے گا اور اپنا آپ کھو دے گا. اور اس بھی مشکل کام اپنی کیفیت کا اظہار ہے کیونکہ اسکے بعد اللہ سب ٹھیک کر دےگا. مایوسی گناہ ہے. یار اچھے خاصے تو ہو حوصلہ رکھو وغیرہ وغیرہ جیسے پیغامات کی لمبی لسٹ. تسلی دینے والے کی نیت پہ شک نہیں کیا جا سکتا مگر ضروری نہیں کہ بندہ اتنا سب سننے کی ہمت رکھتا ہو. یوں بھی ہوتا ہے کہ دلاسے درد بڑھانے لگتے ہمدردیاں گالیاں لگنے لگتی. اور حالات مزید خراب ہو جاتے. کیا ہی اچھا ہو کہ جھوٹی تسلیوں کی جگہ رونے کو کندھا دیا جائے. لمبی چھوڑنے کی جگہ بولنے کا موقع دیا جائے. سب ٹھیک ہو جائے گا کی گردان الاپنے کی بجائے مسئلے کے پہلووں کا جائزہ لیا جائے اور حل تلاش کیا جائے. تاکہ سچ میں کچھ ٹھیک ہو سکے.... شاید کچھ ٹھیک ہو ای جائے مصباح چوہدری

عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ. کتنی خوبصورت بات ہے. اسی رنگ کا کرشمہ ہے کہ ہر دور میں عورت توجہ کا مرکز رہی ہے تخلیق انسان سے لیکر آج تک اس پہ بہت لکھا گیا اسکے کردار اخلاق اور حسن کی بہت سی گرہیں کھولی گئیں. مفتی صاحب فرماتے ہیں عورت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی مرد کچھ کھائے پیے اور بور ہوئے بغیر پہروں عورت پہ بات کر سکتے ہیں. اسی اہمیت کا مرہون منت ہے کہ ہر ایک نے اپنی استطاعت کے مطابق عورت نامے کو اپنی زندگی میں ایک خاص مقام دیا. اسکے کردار اخلاق جذبات ہر حوالے سے تاویلیں گھڑی گئیں جو کہ بہت مشہور بھی ہوئیں جیسے بانو قدسیہ فرماتی ہیں کہ ایک بھوک سے ہمیشہ دوسری بھوک کا سراغ ملتا ہے یہی وجہ ہے عورت ہر معاشرے میں اپنی اشتہا کی نمائش کرتی ہے. پچھلی صدی میں عورت کی بھوک کی نمائش جنسی آمادگی کے مترادف تھی تبھی تو ہر دور میں مرد کچی بھوک والی کے پیٹ کا سودا اپنے جسم سے کرتا آیا ہے. راتوں کو چوری بیویوں کے لیے قلاقند اور دیگر لغویات اس کی تصدیق ہیں. دوسری طرف کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ عورت کے بننے سنورنے کے شوق کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی باتیں نتھی ہیں جیسا کہ ہون

رب کی رضا

پتہ اللہ پاک جسے چن لیتا ہے تو اسکو کندن کرنے کے لیے حالات کی بھٹی سے گزارتا ہے. اسے صبر کے روزے رکھوا کر شکر کی ترغیب دیتا ہے اور پھر عطا کی افطار سے اس میں زندگی بھر دیتا ہے. لیکن اس سارے عمل میں انسان کئی بار ٹوٹتا ہے کئی بار مایوس ہوتا در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے اسے لگتا ہے کہ اسکا مالک اس سے ناراض ہے تبھی تو حالات کی تپتی دھوپ میں سستانے کو خیال یار تک میسر نہیں. مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے پوری کائنات تو اسے محبوب تک پہنچانے کی جدوجہد میں لگی رہتی ہے. بظاہر ہر طرف سیاہی چھائی رہتی ہے ایسی سیاہی کہ جس میں سیاہ رنگ بھی پھیکا لگے. ایسی کٹھنائی کے ہر قدم اذیتوں بھرا ہو. انسان سمجھ ہی نہیں پاتا اس جفا میں چھپی وفا کو. اس سختی میں لپٹی آسانی کو. اس تاخیر میں بندھی جلدی کو. اس پل صراط کے نیچے بہتی کوثر کو. مگر جب پا لیتا ہے تو شکر کے سجدے طویل ہو جاتے ہیں. صبر کا مفہوم بدلنے لگتا ہے. پھر سیاہی میں چھپے ساتوں رنگ اس پہ عیاں ہونے لگتے ہیں. ادراک کے رستے وجدان کی منزلوں تک لے آتے ہیں. اور پھر خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا. سب روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے. ✍🏻مصباح چوہدری

تحریر

"الفاظ تو آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں" یہ جملہ اکثر سماعت سے ٹکراتا ہے. تو جناب یہ اتنا آسان نہیں ہوتا. خیالوں کی راہ گزر پر بے لگام بھاگتی سوچوں کو الفاظ کی نکیل ڈال کر کاغذ کے پنوں میں باندھ دینا ایک انتہائی دشوار گزار عمل ہے. اور ہر بار یہ نکیل ٹھیک سے ڈلے اسکی کوئی گارنٹی نہیں سوار جتنا بھی ماہر ہو زرا سی چوک اسے میلوں رگیدتی رہتی ہے. کون جانے کتنی بار جسم چھلتا ہے. خون کے پھوہارے پھوٹتے ہیں راستوں پہ پڑی کنکریاں گھاؤ میں پیوست ہو کر درد کی شدت بڑھاتی ہیں. کتنی بار اشک پلکوں کی سیما کو توڑتے ہیں. کتنی بار امید کا دامن ہاتھ سے پھسلتا ہے. کتنی بار لفظوں کی رسی الٹا اپنے گلے پڑتی ہے. کتنی بار دم گھٹتا ہے. اور کتنی بار لکھاری مرتا ہے. پڑھنے والے جن آہوں پہ واہ وائی کرتے ہیں لکھنے والا ان سارے حالات سے گزرتا ہے. الفاظ یونہی پر اثر نہیں ہوتے. امید اور ناامیدی یقین اور بے یقینی کے پل صراط پر سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر تحریر میں جان پڑتی ہے اور وہ زینت ورق بنتی ہے. مصباح چوہدری

ادھوری عورت

ادھوری عورت پیدا ہوتے ہیں دادی نے کہا لو جی پہلے ہی بیٹی پیدا ہو گئی اب دیکھنا لڑکیوں کی لائن لگ جانی. باپ نے یہ سوچ کہ منہ پھیر لیا کہ بڑا بیٹا ہوتا تو میرا بوجھ بانٹتا اب زندگی کا انحصار اللہ کے بعد اس دنیا میں ماں کے کمزور کندھوں پہ تھا. زندگی آگے بڑھنے لگی سب پیار بھی کرنے لگے مگر سب اچھا کیسے چل سکتا ہے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے دنیا میں آئے کہ ماں کے دودھ کی نعمت سے بھی محروم ہونا پڑا کیونکہ اگلے بچے کے لیے بیج بویا جا چکا تھا کبھی بھینس کبھی گائے کبھی بکری کے دودھ کو نعم البدل کے طور پہ استعمال کروایا گیا اور غریب گھر کیونکہ دودھ کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا تھا تو چائے پہ گزارہ کرنا پڑا. اگلا بچہ بیٹا تھا تو سب کی بانچھیں کھل گئی باپ کے بڑھاپے کا سہارا ماں کا راج دلارا ددھیال کی نسلوں کا چلانے والا. باپ کی ادھوری محبت ماں کا مجبوریوں میں بٹا دلار. دونوں بچوں کو پال نہیں سکتی تو بیٹی ننھال کے سپرد. کبھی سوچا ہے کہ ننھال میں ان بچوں کی کیا وقعت ہوتی جنکے ماں باپ کسی بوجھ کی طرح اتار پھینکیں؟ گلے پڑا ڈھول جسکو بس بجانا ہے. خیر اگلی بہن اگلے بھائی آنے پہ ماں کو آیا چاہیے اسلیے اس مو

ہم لڑکیاں

ہم لڑکیاں بھی کتی عجیب ہوتی ہیں باپ ذرا سا غصہ کر دے بھائی ذرا سا ناراض ہو جائیں گھر میں تھوڑی سی چخ چخ شروع ہو جائے تو کانپنے لگتیں ہیں آنکھوں سے آنسو یوں بہتے کہ بس اب کبھی رکیں گے نہیں. مگر جب کسی نامحرم سے بات کرتیں ہیں اسے دل میں بساتی ہیں تو ہمارے دل نہیں کانپتے. اس سے ملنے جانے پہ قدم نہیں ڈگمگاتے محبت کے نام پہ نامحرم کے ساتھ محرم والے تعلق بناتے ہماری روح نہیں لرزتی. ہم بڑے آرام سے باپ بھائی بہن ماں سب کی طرف سے ڈھائے جانے مظالم کے قصے کسی غیر کے شانے سر ٹکائے کہتی جاتی اور ہماری زبان میں لکنت تک نہیں آتی. اپنے تن من کے سارے زخموں پہ کسی کی محبت کا مرہم لگائے ہم بڑی شان سے چلتی ہیں. کبھی دھیان ہی نہیں دیتیں کہ یہ ایسا مرہم جو وقتی زخم مندمل ہونے کا ذریعہ لگتا ہے مگر حقیقت میں اسکے جال تلے کئی نئے زخم بن رہے ہوتے ہیں اور ہمیں ادراک تب ہوتا ہے جب یہ ناسور بن جاتے ہیں. اور پھر کردار کی پاکیزگی چہرے کی معصومیت زندگی کا سکون رشتوں کا مان چاہتوں کا بھرم سب ختم ہوجاتا ہے. زخمی روح گھائل جذبے ساری زندگی رستے رہتے ہیں اور ندامت کے کوڑے کبھی انکو بھرنے نہیں دیتے. مصباح چوہدری

فل سٹاپ

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم انسان نہیں ہیں کیونکہ انسان تو آذاد ہوتا ہے. اپنی رائے میں اپنی بات میں یہاں تک کے اپنی سوچ میں بھی, مگر نہ ہماری رائے اپنی نہ بات اپنی اور نہ ہی سوچ. انسانوں کی طرح ہمارے پاس جذبات اور احساسات کی دولت بھی نہیں ہے. شاید محبتوں چاہتوں عقیدتوں احساس اور ندامت سے ماوری ہم لوگ بس گوشت کے ٹکڑے ہیں جنہیں ہڈیوں کا فریم بنا کر اسکے ساتھ لٹکا دیا گیا ہے. تبھی تو ہر کوئی اپنی بھوک کے عوض گوشت کا ٹکڑا خریدنا چاہتا اور بیچنے والے منہ پہ میک اپ کا لیپ لگا کر اور اچھی پوشاک میں ڈھانپ کر بیچنا چاہتے ہیں. نہ خریدنے والے کے لیے ہماری کوئی اہمیت اور نہ بیچنے والے کے لیے کوئی وقعت.پتہ نہیں ہم کیوں ہیں صرف دکھاوے کے لیے؟ یا کوئی بوجھ جو اتارنے کے لیے ہو. اپنی ناقدری دیکھنا کتنا مشکل ہے لمحہ لمحہ انسان موت کو گلے لگاتا ہے مگر نہ موت آتی ہے نہ زندگی ملتی ہے. شاید یہ سزا ہو. حاصل کی ناقدری کی. کیونکہ حاصل کی ناقدری کرتے ہوئے ہم جان ہی نہیں پاتے کہ لاحاصل تو ہمیشہ لا ہی رہتا ہے. اور پھر یہ لا زندگی کے آگے لگ جاتا ہے ہر خوشی ہر سکھ اور ہر سکون کے آگے لگے فل سٹاپ کی طرح. مصباح چوہدری

لمحوں کے قیدی لوگ

ہم سب ایسے وقت سے گزرتے ہیں جہاں ہر طرف اندھیرا ہوتا ہے روشنی کی کوئی مدھم سی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی.ایسی کیفیت جہاں سوچ الفاظ, خیالات, جذبات, احساسات سب ساکت ہوجاتے ہیں تھکاوٹ سے جسم چور اور پاوں شل ہوتے ہیں.ہماری نظروں کے سامنے زمانہ چل رہا ہوتا ہے مگر ہم کسی بےیقین لمحے میں مقید ہوجاتے ہیں. ہماری آوازیں چیخیں سسکیاں سب حلق میں دم توڑ دیتی ہیں اور بنجر آنکھوں سے آنسو قطار در قطار رخساروں سے گردن تک لڑھکتے پھرتے ہیں. کچھ لوگ اسکو مایوسی کہتے ہیں کیونکہ اس میں آس و امید کا دامن پہنچ سے دور ہوتا ہے صرف یقین ہوتا ہے تو اس بات کا بس اب کچھ اچھا نہیں ہو سکتا. کچھ لوگ اسی گرادب میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. جبکہ کچھ لوگوں پہ پھر سےرحمتیں برستی ہیں اور وہ اندھیری رات کے بعد روشن سحر دیکھتے ہیں. ایسی روشن کی جس سے آنکھیں نہیں چندھیاتی نہ دل اکتاتا ہے. مصباح چوہدری

مکروہ کردار

کچھ لوگوں کے مکروہ کردار سے پوری انسانیت کا چہرہ کتنا مسخ شدہ لگتا ہے اسکا اندازہ مجھے ایک پری میچور بچے کے مردہ وجود کی تصویر سے ہوا. حضرت انسان کی آذادی سے خوف آیا کہ آذادی ملنے پر نفس کا مشکی گھوڑا گناہ کے راستے پہ سر پٹ بھاگنے لگتا ہے اور پھر اپنی دوڑ میں عزت وقار ایمانداری روایات نام و نسب سب کو روندتا ہوا تسکین کے سفر پہ گامزن رہتا ہے اور نتیجتاً انسان اور حیوان کی خصلت میں فرق نہیں رہتا دونوں کی اولادیں کوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں. یہ کیفیت بہت تکلیف دہ ہے مرد اور عورت کے اس روپ سے شاید شیطان بھی منہ پھیر لیتا ہوگا. یہ ایسا آئینہ ہے کہ جس کے سامنے ساری انسانیت برہنہ دکھائی دیتی ہے. مگر اس سے بھی زیادہ اذیت ناک وہ محرکات ہیں جو ایک انسان کو حیوان بننے پہ مجبور کر دیتے ہیں. ان محرکات میں نکاح کا مہنگا ہونا سر فہرست ہے. لڑکا کماتا کیا ہے؟ پڑھا کتنا ہے؟ ترقی کے مواقعے کتنے ہیں؟ گھر بار اپنا ہے؟ خاندان بڑا تو نہیں؟ باپ کیا کرتا ہے؟ جبکہ دوسری جانب لڑکی کیسی ہے؟ منہ متھے لگتی؟ پڑھی کتنا؟ نوکری کرتی؟ باپ بھائیوں کا کیا کاروبار؟ جہیز میں کیا دیں گے؟ پڑھ لکھ کے نوکری نہیں کرتی تو پڑھنے ک

ملمع سازی

میں اکثر سوچتی ہوں پتہ نہیں یہ کم فہمی ہے کہ اوندھی مت جو انسان ہمیشہ ظاہر کے سامنے خود کو ہار جاتا ہے. ظاہری حسن ہو کہ دولت, دانشوری کہ بصارت اسکی چکا چوند سے دیکھنے والے کی آنکھیں چندھیا ہی جاتی ہیں. جبھی تو رات کے دامن میں اترنے والا سیاہ چاند ہمیشہ سے انسانی آنکھ کا محور بنا ہوا ہے. سورج سے روشنی مستعار لینے والا یہ گولا صدیوں سے بہنوں کا راج دلارا رہا ہے تبھی تو مایئں بچوں کو چندا ماما کے قصے سناتی نہیں تھکتی جبکہ دوسری طرف کچی عمر کے بالک اس میں اپنا محبوب تلاش کرتے ہیں سب اسکی اصلیت سے واقف ہیں مگر پھر بھی اسکی چاندنی کے سامنے دل ہار بیٹھتے ہیں. بات چاند پہ ہی ختم نہیں ہوتی اکثر لوگ بھی ملمع سازی کے جال پھینک کر دوسروں کو مچھلیوں کی طرح پھانستے ہیں. اور چارے کے طور پر ہر عہد میں کوئی نہ کوئی حربہ اپنایا جاتا رہا ہےکبھی میک اپ. کبھی دولت بنگلہ گاڑی اور کبھی بہترین اخلاق کا چارہ ڈال کر لوگوں کو پھانسا گیا ہے. کاش کبھی انسان اپنی فہم کی آنکھ کا استعمال کرتے ہوئے ظاہر کے ساتھ باطن کو بھی دیکھ پائے. ادراک کی نئی منازل طے کرے تو وجدان کی پریاں ہر طرف اتریں گی پھر ہر کوئی دوسرے کو بنا

چنگڑ پنا

ہم تھک جاتے ہیں ہمیشہ سگھڑ, اچھے, سنجیدہ اور سمجھدار بن کے. مگر ہماری اچھا بننے کی چاہ ہمیں ان پردوں سے نکلنے ہی نہیں دیتی. اور زندگی کے بہت سارے رنگ ان پردوں کی وجہ سے ماند پڑھ جاتے ہیں. کبھی سوچا ہے کہ ہم ایک جیسے حالات میں نہیں رہ سکتے ایک ہی سوچ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے..کیوں؟؟؟ کیونکہ ہم میں خیر اور شر کا بیج ہے ہم تضادات کا مجموعہ ہیں اسلیے ایک سے نہیں رہ سکتے.نیکی کے ساتھ بہکنے پہ بھی مجبور ہیں اور یہ مجبوری ازل سے ہے اور تا ابد رہے گی. سنجیدگی عقلمندی اور دانائی کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی خود کو آذاد بھی چھوڑنا چاہیے. تھوڑی بونگیاں مارنی چاہیں تھوڑی شرارتیں تھوڑے مذاق کہ یہ بھی زندگی کا حصہ ہیں. اس اچھا اور بہتر بننے کے عمل نے ہماری زندگیوں سے مزاح کا عنصر تقریباً ختم کر دیا ہے ہمارے اندر کا معصوم بچہ دم گھٹنے سے مر رہا ہے. اسکو آکسیجن دیں. ورنہ وہ مر گیا تو معصومیت جاتی رہے گی اکھڑ پن اور کھڑوسیت کا ڈیرہ ہو گا پھر ہر کوئی مفاد پرست بن جائے گا خود غرضی نفاق کا ایسا بیج بوئے گی کہ بھائی چارے کی ساری فضا زہر آلود ہو جائے گی. اپنے اندر کو زندہ رکھیں مان لیں خود کو, قبول کر لیں جی

مادیت پرستی

دکھاوا اور مادیت پرستی ایسے گھن ہیں جو عقیدے کی پختگی کو چاٹ جاتے ہیں. مصباح چوہدری

ل جکڑے لوگ

لفظوں کے جال میں جکڑے لوگ اکثر مفہوم کی دولت سے محروم رہتے ہیں. مصباح چوہدری

کمر کرنا

میری دادی اماں کہتی ہوتیں تھی "پتر ٹرھدے ہوئے قرآن نوں کمر نئیں کریں دی گناہ ملدا" اور میں بہت دیر تک سوچا کرتی تھی کہ جسمانی طور پر کمر کرنے پہ اگر گناہ ملتا ہے تو عملاً کمر کرنے پہ بھی کیا کوئی پکڑ ہوتی ہے؟ ہمارے زیادہ تر عمل قرآن کے منافی ہیں کیا یہ کمر نہیں؟ قرآن کو بند کر کے رکھنا کمر نہیں؟ اسکو ثواب کی نیت سے پڑھنا اس میں موجود عمل کو کمر نہیں؟ اسی طرح بہت سی کمریں ہیں جو ہم دین کی طرف کر کے چلتے ہیں. کبھی سوچا ہے یہ کمریں ہماری زندگیوں پہ کس طرح اثر انداز ہو رہی ہیں.  ذرا سوچیے مصباح چوہدری

تبدیلی

پچھلے کچھ عرصہ سے ایک عجیب سی تبدیلی دیکھی گئی ہے جیسے کہ پہلے اگر کوئی چور پکڑا جاتا تھا تو نیوز کاسٹر اسکی خبر کچھ اس انداز سے پڑھتے کہ فلاں علاقہ میں مبینہ چور کے پکڑے جانے پہ اہل علاقہ نےاسکی خوب دھلائی کی. مگر اب کہتے ہیں کہ مبینہ چور پہ تشدد کیا گیا. مزید براں کچھ بیبیاں اور بابے جنکا تعلق حکومت سے تھا. انکی انتہائی جذباتی کیفیت میں بنائی ویڈیوز اور حریم شاہ اور صندل خٹک کی ملکی ایوانوں کو مالکان کیساتھ چرچے اور اسکے ساتھ پچھلے دنوں ملک ریاض کی بیٹی والے واقعہ پہ سوشل میڈیا پہ چلائی جانے والی پوری کمپین جس میں اس اداکارہ کو معصوم اور کمزور مانتے ہوئے اسکے ساتھ ہونے والی زیادتی کی دھائی دی گئی. پھر ایک تسلسل کے ساتھ ملکی اداروں پہ بہتان بازی اور انکو ظالم ثابت کرنے کی کوششیں. جبکہ دوسری جانب میرا جسم میری مرضی کے سلوگن کے ساتھ عورتوں کو قابل اعتراض نعروں اور لباس کے ساتھ چوراہوں میں لایا گیا. کبھی بلوچستان اور کبھی وزیرستان کو کشمیر کے ساتھ تشبیح دی گئی اور جب اس بھی پیٹ نہیں بھرا تو لال انقلاب کے نام پہ ملکی غداروں کو ہیرو قرار دیتے ہوئے پورے دل سے انکے ساتھ تعاون کی یقین دہانی

بد گمانیاں

ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں معمولی رنجشوں اور بد گمانیوں کو دور کرنے کی بجائے قبریں بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے. محبتوں کی قبریں, احساس کی قبریں, تعلقات کی قبریں, رواداری و اخوت کی قبریں, خوابوں خیالوں اور حوالوں کی قبریں, قبروں کے اوپر, نیچے, اردگرد ہر جگہ قبریں ہی قبریں, ہماری قبریں جنکے گورکن بھی ہم خود ہوتے ہیں اور ان پہ فاتحہ خوانی بھی خود ہی کرتے ہیں. ✍🏻مصباح چوہدری