عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ. کتنی خوبصورت بات ہے. اسی رنگ کا کرشمہ ہے کہ ہر دور میں عورت توجہ کا مرکز رہی ہے تخلیق انسان سے لیکر آج تک اس پہ بہت لکھا گیا اسکے کردار اخلاق اور حسن کی بہت سی گرہیں کھولی گئیں. مفتی صاحب فرماتے ہیں عورت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی مرد کچھ کھائے پیے اور بور ہوئے بغیر پہروں عورت پہ بات کر سکتے ہیں. اسی اہمیت کا مرہون منت ہے کہ ہر ایک نے اپنی استطاعت کے مطابق عورت نامے کو اپنی زندگی میں ایک خاص مقام دیا. اسکے کردار اخلاق جذبات ہر حوالے سے تاویلیں گھڑی گئیں جو کہ بہت مشہور بھی ہوئیں جیسے بانو قدسیہ فرماتی ہیں کہ ایک بھوک سے ہمیشہ دوسری بھوک کا سراغ ملتا ہے یہی وجہ ہے عورت ہر معاشرے میں اپنی اشتہا کی نمائش کرتی ہے. پچھلی صدی میں عورت کی بھوک کی نمائش جنسی آمادگی کے مترادف تھی تبھی تو ہر دور میں مرد کچی بھوک والی کے پیٹ کا سودا اپنے جسم سے کرتا آیا ہے. راتوں کو چوری بیویوں کے لیے قلاقند اور دیگر لغویات اس کی تصدیق ہیں. دوسری طرف کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ عورت کے بننے سنورنے کے شوق کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی باتیں نتھی ہیں جیسا کہ ہونٹوں پہ لگائی جانے والی سرخی (لپ سٹک) عورت کے جذبات کی عکاس ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تیار ہے کسی جسمانی تعلق کے لیے. اسکا اونچا بولنا, اسکے کھانے پینے کے طریقے, اسکے چلنے کے انداز اور پہننے اوڑھنے تک کے ساتھ ڈھیروں کہانیاں جڑی ہیں یہاں تک چولھا جلانے کے عمل کو اس کے سگھڑاپے اور گھرداری کی دلیل مانا جاتا تھا. مگر کبھی سوچا ہے. جتنی توجہ ان سب باتوں پہ دی گئی اسکی آدھی بھی عورت پہ دی جاتی تو شاید اس سب کی نوبت ہی نہ آتی. عورت انسان کے عہدے سے ڈیکوریشن پیس کا سفر طے نہ کرتی. یاد نہیں کہ انسان کو جب بنایا گیا تو یہ بات اسکی گھٹی میں ڈال دی گئی کہ جو مانگنے سے نہ ملء اسے چھین لو خواہ اسکے لیے تمھیں عرش کی بلندیوں سے فرش کی پستیوں میں ہی کیوں نہ گرنا پڑے. اگر عورت ساتھ جڑی ان سب کہانیوں کا مان بھی لیا جائے تو یہ جواب کون دے کہ عورت ایسی کیوں ہے؟ اپنے جسم اور جذبات کی نمائش کے لیے وہ کیوں ایسا کرے گی؟ یہ اسکا قصور ہے بھی کہ نہیں جو مرد اس پہ بات کرتا؟ یہ چیونگم چباتی کونسی بھوک بڑھا رہی ہےاور کیوں؟ شاید عورت اپنا برابری کا حق چاہتی تھی یا شاید مرد کے دل پہ راج؟ حق سے مراد روپیہ پیسہ یا جائیداد نہیں بلکہ اپنی رائے کی آذادی کا حق. اپنے بات پہ ڈٹے رہنے کا حق..خود کو انسان ثابت کرنے کا حق..یہ بھی تو ہو سکتا کہ کہیں بہت پہلے اولاد قابیل نے اس کو اسکے منسب سے گرا دیا ہو اور پھر اسکو ترغیب دی ہو وہ اس راہ پہ چلتی ہوئی ہی اہم ہو سکتی ہے. اور پھر اس نے ان سب باتوں کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہو. یا یہ سب باتیں سرے سے من گھڑت ہوں جنکا کوئی تعلق ہی نہ ہو عورت سے. بات کوئی بھی ہو مگر آج بھی عورت خود کو جازب بنانے کے لیے ان سب باتوں کا سہارا لیتی ہے جو اسکے کمزور ہونے کو ظاہر کرتا ہے. تو کیا ہی اچھا ہو کہ ان باتوں کے افسانے بنانے کی بجائے عورت کو اسکا مقام دے کے دیکھا جائے اگر عورت ہوئی تو خود کو پا لے گی اور اگر ناں پا سکی تو عورت نہیں ہو گی.
✍🏻مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار