ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟؟
ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟؟ اکثر کہتے ہیں کہنے والے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ سنو جاناں۔ اگر ہم کچھ سکتے تو سچ کی سولی چڑھ سکتے تو آس کے دیپ جلا سکتے تو ملک کو اسلامی بنا سکتے تو زینب یوں چپ چاپ نہ سوتی بیٹی کسی کی بے آس نہ ہوتی عزتوں کے جو رکھوالے ہوتے درندے یوں بدحواس نہ ہوتے چونیاں والے یوں نہ روتے کیا بچے ایسے بلک کے مرتے؟ کتوں سانپوں شیطانوں سے ڈرتے؟ نہ مندر گرتے نہ نمرتا مرتی گرجے اتنے ویران نہ ہوتے۔ ہم اگر ایسے انسان نہ ہوتے۔ اور سنو گے کیا کیا سناوں؟؟ لاکھوں ہیں شکوے کیا کیا بتاوں؟؟ عزتیں یوں پامال نہ ہوتیں گلشن یوں ویران نہ ہوتے مسجد یوں مسمار نہ ہوتی قرآن لہو لہان نہ ہوتے ہم اگر ایسے انسان نہ ہوتے۔ تم کرتے تو تو تم کر سکتے تھے اسلام کا دامن پکڑ سکتے تھے انسانیت زندہ کر سکتے تھے ملک کے لیے مر سکتے تھے بیٹی کی عزت کروا سکتے تھے بیٹا پروان چڑھا سکتے تھے گھر لٹنے سے بچا سکتے تھے اسلام کا پرچم لہرا سکتے تھے نماز میں سر کٹوا سکتے تھے سینے میں گر شیطاں نہ ہوتے ہم ایسے انساں نہ ہوتے عصمتیں لوٹ کے گلشن اجاڑ کے کیا پوچھتے ہو کیا کر سکتے ہو؟ کیا ڈوب کے تم اب