Posts

Showing posts from September, 2019

ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟؟

ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟؟ اکثر کہتے ہیں کہنے والے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ سنو جاناں۔ اگر ہم کچھ سکتے تو سچ کی سولی چڑھ سکتے تو آس کے دیپ جلا سکتے تو ملک کو اسلامی بنا سکتے تو زینب یوں چپ چاپ نہ سوتی بیٹی کسی کی بے آس نہ ہوتی عزتوں کے جو رکھوالے ہوتے درندے یوں بدحواس نہ ہوتے چونیاں والے یوں نہ روتے کیا بچے ایسے بلک کے مرتے؟ کتوں سانپوں شیطانوں سے ڈرتے؟ نہ مندر گرتے نہ نمرتا مرتی گرجے اتنے ویران نہ ہوتے۔ ہم اگر ایسے انسان نہ ہوتے۔ اور سنو گے کیا کیا سناوں؟؟ لاکھوں ہیں شکوے کیا کیا بتاوں؟؟ عزتیں یوں پامال نہ ہوتیں گلشن یوں ویران نہ ہوتے مسجد یوں مسمار نہ ہوتی قرآن لہو لہان نہ ہوتے ہم اگر ایسے انسان نہ ہوتے۔ تم کرتے تو تو تم کر سکتے تھے اسلام کا دامن پکڑ سکتے تھے انسانیت زندہ کر سکتے تھے ملک کے لیے مر سکتے تھے بیٹی کی عزت کروا سکتے تھے بیٹا پروان چڑھا سکتے تھے گھر لٹنے سے بچا سکتے تھے اسلام کا پرچم لہرا سکتے تھے نماز میں سر کٹوا سکتے تھے سینے میں گر شیطاں نہ ہوتے ہم ایسے انساں نہ ہوتے عصمتیں لوٹ کے گلشن اجاڑ کے کیا پوچھتے ہو کیا کر سکتے ہو؟ کیا ڈوب کے تم اب

کون لوگ ہیں ہم؟؟؟؟

کون لوگ ہیں ہم؟؟؟ یہ سوال میرے ذہن کی کھڑکیاں دروازے توڑ کر میری سوچ کی لہروں میں وقتی ارتعاش پیدا کر کے بے بسی کے سمندر میں دم توڑ جاتا ہے۔۔ کہ ہم کون ہیں؟ ہم ایک مہینے کے مسلمان، 10 دن کے حسینی، 3 دن کے اسمعیلی، ایک دن کے پاکستانی، ایک دن کیلئے وطن کے جانثار اور سرحدوں کے محافظ بن جاتے ہیں جبکہ سال کے باقی 319 دن؟؟؟؟؟ ہاں سال کے باقی دنوں میں ہم نفس کے دنبے کو خواہشوں کے چارے سے خوب پالتے ہیں۔۔ ان خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہم کرپٹ ہوتے ہیں، نااہل، دغا باز، جاہل مطلق، احمق، چور، شعبدہ باز، محور سے دور بس اپنی مستی میں مگن ہوتے ہیں۔ دس محرم تک ایسے مسلمان کے اہل مدینہ بھی گمان کریں کہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں نمازیں خوش اخلاقی جذبہ حسینیت سے ایسے سرشار کے لنگر تقسیم ہو رہا سبیلیں لگائی  جارہیں دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے گھر جایا جا رہا۔ گانے فلمیں ڈرامے سب بند۔ بس ایک رات اور اگلی صبح 11 محرم۔۔کونسا لنگر کونسی ہمدردی کیسا دکھ سکھ۔۔؟؟؟؟ ہم کیا ہیں؟ ہم کیوں ہیں؟؟ کیا ہمارا کوئی مقصد حیات ہے؟؟ کیا ہم صرف اس دنیا میں کھانے پینے بچے پیدا کرنے اور مرنے آئے ہیں؟  اگر یہی مقصد ہے زندگی کا تو جان

غروفکر۔۔۔۔ ایک دن ایک زندگی

انسان میں اگر غور و فکر کامادہ ہو تو کائنات کی ہر چیز اپنے اندر کئی راز چھپائے بیٹھی ہے۔ پھر بھلے جیتا جاگتا انسان ہو کہ رینگنے والا کیڑا۔ دیو ہیکل پہاڑ ہوں یاکناروں کی سرحدوں سے پرے پھیلے سمندر۔ آسمان کی لامتناہی پھیلی چادر ہو کہ تہہ در تہہ جڑی زمین کی پرتیں۔ نظام شمسی ہو کہ قمر کا اتار چڑھاو ہر شے ایک مخصوص مدار میں ایک خاص نسبت سے اپنے سفر کی منازل طے کر رہی ہے۔ اللہ نے ہر شے میں ایک خاص نسبت رکھی ہے پھر بھلے وہ موسموں کا بدلنا ہو پھولوں کاکھلنا ہو یا فصلوں کی تیاری سب میں ایک خاص نسبت ہے۔ کبھی دیکھیں تو انسان کا سفر زندگی بھی اسی سے ملتا جلتا۔ بچپن خوبصورت ٹھنڈی صبح جیسا روشن جس کے طلوع پر ہر طرف زندگی کی لہر دوڑ جاتی۔ ہر زی روح خوشیاں مناتا۔۔کڑیل جوانی دوپہر کے آگ برساتے سورج جیسی جہاں سایہ بھی سمٹ کے پاوں تلے دب جاتا اپنے سوا کچھ نظرہی نہیں آتا۔ اور ڈھلتا سورج ڈھلتی جوانی جیسا بس سبکو اپنے کام کی پڑی ہوتی کہ غروب سے پہلے یہ بھی ہو جائے وہ بھی ہو جائے اور پھر آتا بڑھاپا غروب آفتاب جیسا دن بھر کی تلخیاں سمیٹے غصے سے لال ہوتا لیکن اسکی لالی میں وہ تپش نہیں ہوتی جیسے بوڑھوں کی آواز

یوم دفاع

6ستمبر یوم دفاع ایک ایسی تاریخ جب دشمن کی یلغار پر بہادر فوج کے سپوت سر زمین وطن کی حفاظت کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ مقصد صرف ایک کہ وطن کی زمین کا ایک انچ بھی دشمن کے ارادوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جستجو میں اپنا سینہ حاضر کیے تھا کہ اسکا خون اس زمین کی ذرخیزی کو دوبالا کر سکے۔ چمنڈہ اس بات کا شاہد ہے کہ پاکستانی شیروں نے کس بہادری کے ساتھ بھارتی درندوں کی در اندازی کو انکے گلے کا پھندہ بنا دیا اور وہ اپنا اسلحہ اور لاشیں چھوڑ کے ایسے بھاگے کہ مڑ کر نہ دیکھا۔ یہ دن اس بات کا عکاس بھی ہے کہ پوری قوم بہادر فوج کی طاقت بنے ان کے ساتھ کھڑی تھی عورتیں بچے بوڑھے جوان ہر کوئی یہی چاہتا تھا کہ بس ایک موقع مل جائے شہید یا غازی ہونے کا ایسا جنون کہ بچے بچے میں خالد بن ولید کی روح آ گئی ہو اسلام کی سر بلندی کی جستجو ایسی کہ وقت کے یزیدوں کو کیفر کردار تک پہنچا کہ ہی دم لیں گے۔ جذبہ ایمان سے سرشار بوڑھے یوں ٹینکوں طلے بچھ رہے تھے کہ جیسے جوانی آگے دامن پھیلائے کھڑی ہو۔ مائیں بچوں کو ایسے بھیج رہی تھیں کہ جنے ہی اسی مقصد کے لیے ہوں۔ کوئی مذہب نہ تھا کوئی فرقہ نہ

اے ارض وطن تجھے کیا لکھوں

اے ارض وطن تجھے کیا لکھوں۔ اپنے ہر درد کی میں دوا لکھوں۔ تجھے ردائے فاطمہ لکھوں کہ زینب کی میں سدا لکھوں۔ تیرے پہاڑ دریا صحرا کو ۔ میں معجزہ پاک خدا لکھوں۔ تیرے بہتے میٹھے جھرنوں کو۔ میں رنگ قوس قزح لکھوں۔ تیرے بہادر شیر جوانوں کو۔ میں جرات شیر خدا لکھوں۔ شہیدوں کے بہتے لہو کو میں صدقہ کربلا لکھوں۔ دل کرتا بھٹی اور راشد کو میں عمر کی ہر دعا لکھوں۔ اور عبدالقدیر خان کو میں ابو بکر کی وفا لکھوں۔ عثمان غنی کی سخاوت کو میں ایدھی اور رٹھ فا لکھوں۔ اس دھرتی پاک اس امبر کو میں کملی کالی میں لپٹا لکھوں۔ کاش لکھوں کچھ ایسا کہ لکھ سکوں۔ میں حق محبت ادا لکھوں۔۔ اپنے لہوکی اک اک بوند سے میں مطلب لا الہ لکھوں۔ جب لکھوں میں تشریح طیبہ تو میں نام پاکستاں لکھوں۔ ہو جاوں نثار تیری حرمت پر  تو! ہوا کامل اپنا ایماں لکھوں۔۔۔ (مصباح چوہدری)

محبت کی حقیقت

محبت۔۔ کائنات کا کاسب سے خوبصورت جذبہ۔ جسکو لفظوں میں ڈھالنا شاید نہ ممکن سی بات ہے۔ آج کل جہاں دیکھیں لوگ اسی دلکش احساس کی مٹی پلید کرتے نظر آتے ہیں۔ محبت کی میم سے نابلد لوگ خود کو دور حاضر کے لیلی مجنوں گردانتے ہیں۔ بانو قدسیہ کو لگتا ہے کہ محبت ایک چھلاوہ ہے اسکی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے کچھ لوگ آپ سے محبت کے لیے محبت کرتے۔کچھ اتصال جسم کے خواہاں ہوتے کچھ روح کے لیے تڑپتے، کسی کسی کے جذبات پہ آپ خود ہاوی ہونا چاہتے۔ کچھ کو سوچ وادراک کی سمتوں پہ چھا جانے کا شوق ہوتا اس لیے محبت کرتے۔ بانو کے مطابق محبت کا تحفہ ایسے لوگوں کو ملتا ہے جو فرعون صفت ہوتے انکی انا کو قینچی سے کاٹنے کے لیے کسی شخص کی محبت میں گرفتار کروایا جاتا کہ جو خدا کے سامنے نہیں جھکا اب بندے کے ہاتھوں غارت ہو۔ ایسے لوگوں کو عبد بنانے کے لیے انکا قد عام انسانوں جتنا کرنے کے انکے دل میں محبت کا بیج بویا جاتا۔  یا پھر محبت ان لوگوں کو ملتی جو مرنے کی آرزو میں جیتے ۔ ان مردہ جسموں میں محبت کا تریاق اسلیے اتارہ جاتا کہ ان میں زندگی کے آثار نظر آیئں۔(راجہ گدھ) یہ تھی بانو کی محبت اب ہے میری نظر میں محبت۔۔ محب

کشمیر

کشمیر کہنے کو خوبصورت وادی جنت نظیر خطہ۔ لیکن سوچیں تو ہر خیال نعشوں سے بھرا ہوا لکھنے بیٹھو تو خون سے سینچے لفظ آنکھوں سے بہتی ندیاں ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور ڈوبتا دل لفظوں کو کاغذ کی زینت بننے نہیں دیتے۔ جذبات کا اپھلتا سمندر رگوں میں ٹھاٹھیں مارتا لہو بےبسی کے ساحل پہ آکے دم توڑ دیتا ہے۔ سچ کہا حریت رہنما علی گیلانی  نے آج اگر کشمیری مر جایئنگے تو اللہ ہم سب سے حساب لے گا انکی جانوں کا حساب۔ انکی عزتوں کا حساب۔ انکے دکھوں انکے زخموں کا حساب۔ 57 مسلم ممالک دنیاکے نقشے پر موجود ہیں لیکن کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے صرف باتیں۔ انسانیت کی تاریخ میں آج کا دن احساس کی موت کا دن ہوگا اگر آج بھی آواز حلق میں دبی رہی ہاتھ آج بھی جیبوں میں قید رہے دل آج بھی اگر خون کے آنسو نہیں رویا تو سوچیں ضرور کہ ہم انسان ہیں؟؟؟ سوچییں ضرور کہ کیا ہم اس دین کے پیروکار ہیں جہاں ہر اینٹ ضمانت ہے دوسری اینٹ کی مضبوطی کی؟ دنیا میں ایک دین کے نام پر 57 ممالک سوائے احساس سے خالی لوگوں کے قبرستان کے کچھ نہیں رہیں گے۔ اگر اب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہندوستان پر دباو نہیں ڈالا جاتا کشمیر نہیں بچایا جاتا تو یاد رکھ

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار

"بچوں کی کردار سازی میں والدین کا کردار" بچے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ شادی شدہ زندگی کے سارے رنگ انہی کے دم قدم سے ہیں۔ لیکن جہاں قدرت نے ماں باپ کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کے لیے بچے عطا کیے ہیں وہیں بچوں کی زندگی کو خوبصورت اور مکمل کرنے کے لیے ماں باپ جیسی ہستیوں سے نوازا ہے۔ کبھی غور کریں تو پتہ چلتا کہ انسان کہ علاوہ تمام جانداروں کی اولادیں پیدائش کے فوری بعد اٹھنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں۔ لیکن نسل آدم کی بقا کا انحصار اسکے والدین پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں والدین کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا۔ اسلام میں بھی اولاد کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں نہ۔ بچے کی زندگی کے تمام معاملات کا دارومدار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے اور تربیت میں سب سے اہم والدین کے عمل انکا ایک دوسرے اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ رویہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسان ہے کہ وہ اعمال کو دیکھ کے زیادہ راغب ہوتا ہے۔ تبھی اولین درسگاہ ماں کی گود کو کہا گیاہے۔ اسی درسگاہ میں بچہ سیکھتا ہے کہ اسنے دوسروں کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھناہے۔ زندگی میں آنیوالی مشکلات کا سا
Image

نشے کی لت اور نوجوان نسل

Image