محبت کی حقیقت
محبت۔۔ کائنات کا کاسب سے خوبصورت جذبہ۔ جسکو لفظوں میں ڈھالنا شاید نہ ممکن سی بات ہے۔ آج کل جہاں دیکھیں لوگ اسی دلکش احساس کی مٹی پلید کرتے نظر آتے ہیں۔ محبت کی میم سے نابلد لوگ خود کو دور حاضر کے لیلی مجنوں گردانتے ہیں۔ بانو قدسیہ کو لگتا ہے کہ محبت ایک چھلاوہ ہے اسکی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے کچھ لوگ آپ سے محبت کے لیے محبت کرتے۔کچھ اتصال جسم کے خواہاں ہوتے کچھ روح کے لیے تڑپتے، کسی کسی کے جذبات پہ آپ خود ہاوی ہونا چاہتے۔ کچھ کو سوچ وادراک کی سمتوں پہ چھا جانے کا شوق ہوتا اس لیے محبت کرتے۔ بانو کے مطابق محبت کا تحفہ ایسے لوگوں کو ملتا ہے جو فرعون صفت ہوتے انکی انا کو قینچی سے کاٹنے کے لیے کسی شخص کی محبت میں گرفتار کروایا جاتا کہ جو خدا کے سامنے نہیں جھکا اب بندے کے ہاتھوں غارت ہو۔ ایسے لوگوں کو عبد بنانے کے لیے انکا قد عام انسانوں جتنا کرنے کے انکے دل میں محبت کا بیج بویا جاتا۔ یا پھر محبت ان لوگوں کو ملتی جو مرنے کی آرزو میں جیتے ۔ ان مردہ جسموں میں محبت کا تریاق اسلیے اتارہ جاتا کہ ان میں زندگی کے آثار نظر آیئں۔(راجہ گدھ)
یہ تھی بانو کی محبت اب ہے میری نظر میں محبت۔۔
محبت اس دیوانگی کی پہلی سیڑھی ہے جسکی منزل عشق ہے۔ وہی دوانگی جس میں راستہ وجدان اور عرفان کا ہے۔ محبت دراصل محبوب کو جینے کا نام ہے۔ اسکا پہلا قدم اپنی ذات کی نفی ہے۔ محبت وہ مقام ہے جہاں اپنی مرضی اپنی انا اپنی خوشی اپنا دکھ محبوب کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جاتا۔پھر محبوب کو جیا جاتا۔۔ اسکی خوشی اسکا دکھ اسکی ہر ہر ادا کو اپنایا جاتا۔ اس حد تک کہ دیکھنے والا آپ کو دیکھے تو اسکو آپ کے محبوب کا عکس نظر آئے۔ یہاں سے فنا کے آگے کی بقا کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ بقا جو ہمیشہ کی ہے۔ یہ بقا وہی ہے بابا فرید کی بقا شمس تبریز کی بقا چن پیر کی بقا نظام الدین کی بقا بختیار کاکی کی بقا۔۔۔ اس پہلی سیڑھی کے بعد عرفان کی منزل آتی۔۔ جہاں وجدان ہوتا ۔ جہاں اولیاء اللہ کے جانشینوں کی صف میں آتے اور علماء انبیاء کے جانشین بنتے۔ اس مقام پہ وحدت الوجود اور وحدت الشھود کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ محبوب کو کیسے جی سکتے؟؟؟ کاپی کرنا اسکے ہر عمل کی کاپی اسکے قول و فعل کو اپنانا۔۔ میں نے بہت سوچا کہ انسان کے پاس عقل ہے دانش ہے خرد ہے تو کیسے ممکن ہو سکتا کہ بندہ کسی کو ایسے اپنائے کہ اسکی خامیاں نظر نہ آیئں؟؟؟ ہر زاویے سے دیکھنے پہ پتہ چلا کہ محور محبت تو ایک ہی ہستی ہے نبی پاک ص کی ہستی۔۔ انکی احادیث انکا طریقہ حیات ہی تو محبوب کو جینا ہے۔ دیکھیں ہم والدین بہن بھائی سب رشتوں میں آپ ص کی پیروی کرتے ہیں یعنی یہ سب عقیدتیں انہی کی وجہ سے ہیں۔ انہی کی محبت تھی حسین سب جانتے ہوئے کربلا میں محبت کی آزمائش پہ پورے اترے۔ محبت کی ایک خامی ہے کہ محبوب محب کا کچھ رہنے نہیں دیتا۔ پھر وہ انسان ہو کہ اللہ اپنی محبت نہیں بانٹ سکتا۔ جتنے بھی انبیاء ہیں سب کی زندگیاں دیکھیں اسی محبت کی عکاس ہیں۔ سب نے آنسو بہائے۔ انسان میں بھی صفت خدا ہے کہ جس سے محبت ہو کہتا اسکا ککھ نہ رہے اسکے اگلے پچھلے سب مر جایئں۔ بس وہ ہمارہ چاکری جوگا رہے۔لیکن ایک مقام آتا ہے جہاں محب ہی محبوب ہوتا وحدت الوجود کا مقام ۔اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر محبت یہ ہے تو وہ کیا ہے جسکا راگ ہر کوئی الاپ رہا؟؟؟؟ تو اسکو عام زبان میںafection کہتے ہیں۔ ایک خاص قسم کا لگاو جو کسی کے ساتھ بات کرنے سے اسکی خوبیوں کی وجہ سے یا کسی اور خاصیت کی وجہ سے ہو جاتا۔ اسکو محبت کا نام دینا اس جذبے کو توہین ہوگی۔ کیونکہ محبت میں تو پہلی شرط ہی خود کی نفی ہے یہاں تو دوسروں کو محبت کا کہا ہی اپنی پسند یا ضرورتکے تحت کہا جاتا۔۔۔۔۔۔ یہ میرا نظریہ محبت۔۔۔۔
(مصباح چوہدری)
یہ تھی بانو کی محبت اب ہے میری نظر میں محبت۔۔
محبت اس دیوانگی کی پہلی سیڑھی ہے جسکی منزل عشق ہے۔ وہی دوانگی جس میں راستہ وجدان اور عرفان کا ہے۔ محبت دراصل محبوب کو جینے کا نام ہے۔ اسکا پہلا قدم اپنی ذات کی نفی ہے۔ محبت وہ مقام ہے جہاں اپنی مرضی اپنی انا اپنی خوشی اپنا دکھ محبوب کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جاتا۔پھر محبوب کو جیا جاتا۔۔ اسکی خوشی اسکا دکھ اسکی ہر ہر ادا کو اپنایا جاتا۔ اس حد تک کہ دیکھنے والا آپ کو دیکھے تو اسکو آپ کے محبوب کا عکس نظر آئے۔ یہاں سے فنا کے آگے کی بقا کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ بقا جو ہمیشہ کی ہے۔ یہ بقا وہی ہے بابا فرید کی بقا شمس تبریز کی بقا چن پیر کی بقا نظام الدین کی بقا بختیار کاکی کی بقا۔۔۔ اس پہلی سیڑھی کے بعد عرفان کی منزل آتی۔۔ جہاں وجدان ہوتا ۔ جہاں اولیاء اللہ کے جانشینوں کی صف میں آتے اور علماء انبیاء کے جانشین بنتے۔ اس مقام پہ وحدت الوجود اور وحدت الشھود کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ محبوب کو کیسے جی سکتے؟؟؟ کاپی کرنا اسکے ہر عمل کی کاپی اسکے قول و فعل کو اپنانا۔۔ میں نے بہت سوچا کہ انسان کے پاس عقل ہے دانش ہے خرد ہے تو کیسے ممکن ہو سکتا کہ بندہ کسی کو ایسے اپنائے کہ اسکی خامیاں نظر نہ آیئں؟؟؟ ہر زاویے سے دیکھنے پہ پتہ چلا کہ محور محبت تو ایک ہی ہستی ہے نبی پاک ص کی ہستی۔۔ انکی احادیث انکا طریقہ حیات ہی تو محبوب کو جینا ہے۔ دیکھیں ہم والدین بہن بھائی سب رشتوں میں آپ ص کی پیروی کرتے ہیں یعنی یہ سب عقیدتیں انہی کی وجہ سے ہیں۔ انہی کی محبت تھی حسین سب جانتے ہوئے کربلا میں محبت کی آزمائش پہ پورے اترے۔ محبت کی ایک خامی ہے کہ محبوب محب کا کچھ رہنے نہیں دیتا۔ پھر وہ انسان ہو کہ اللہ اپنی محبت نہیں بانٹ سکتا۔ جتنے بھی انبیاء ہیں سب کی زندگیاں دیکھیں اسی محبت کی عکاس ہیں۔ سب نے آنسو بہائے۔ انسان میں بھی صفت خدا ہے کہ جس سے محبت ہو کہتا اسکا ککھ نہ رہے اسکے اگلے پچھلے سب مر جایئں۔ بس وہ ہمارہ چاکری جوگا رہے۔لیکن ایک مقام آتا ہے جہاں محب ہی محبوب ہوتا وحدت الوجود کا مقام ۔اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر محبت یہ ہے تو وہ کیا ہے جسکا راگ ہر کوئی الاپ رہا؟؟؟؟ تو اسکو عام زبان میںafection کہتے ہیں۔ ایک خاص قسم کا لگاو جو کسی کے ساتھ بات کرنے سے اسکی خوبیوں کی وجہ سے یا کسی اور خاصیت کی وجہ سے ہو جاتا۔ اسکو محبت کا نام دینا اس جذبے کو توہین ہوگی۔ کیونکہ محبت میں تو پہلی شرط ہی خود کی نفی ہے یہاں تو دوسروں کو محبت کا کہا ہی اپنی پسند یا ضرورتکے تحت کہا جاتا۔۔۔۔۔۔ یہ میرا نظریہ محبت۔۔۔۔
(مصباح چوہدری)
Comments
Post a Comment