کون لوگ ہیں ہم؟؟؟؟
کون لوگ ہیں ہم؟؟؟
یہ سوال میرے ذہن کی کھڑکیاں دروازے توڑ کر میری سوچ کی لہروں میں وقتی ارتعاش پیدا کر کے بے بسی کے سمندر میں دم توڑ جاتا ہے۔۔
کہ ہم کون ہیں؟
ہم ایک مہینے کے مسلمان، 10 دن کے حسینی، 3 دن کے اسمعیلی، ایک دن کے پاکستانی، ایک دن کیلئے وطن کے جانثار اور سرحدوں کے محافظ بن جاتے ہیں جبکہ سال کے باقی 319 دن؟؟؟؟؟ ہاں سال کے باقی دنوں میں ہم نفس کے دنبے کو خواہشوں کے چارے سے خوب پالتے ہیں۔۔ ان خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہم کرپٹ ہوتے ہیں، نااہل، دغا باز، جاہل مطلق، احمق، چور، شعبدہ باز، محور سے دور بس اپنی مستی میں مگن ہوتے ہیں۔ دس محرم تک ایسے مسلمان کے اہل مدینہ بھی گمان کریں کہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں نمازیں خوش اخلاقی جذبہ حسینیت سے ایسے سرشار کے لنگر تقسیم ہو رہا سبیلیں لگائی جارہیں دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے گھر جایا جا رہا۔ گانے فلمیں ڈرامے سب بند۔ بس ایک رات اور اگلی صبح 11 محرم۔۔کونسا لنگر کونسی ہمدردی کیسا دکھ سکھ۔۔؟؟؟؟
ہم کیا ہیں؟ ہم کیوں ہیں؟؟ کیا ہمارا کوئی مقصد حیات ہے؟؟ کیا ہم صرف اس دنیا میں کھانے پینے بچے پیدا کرنے اور مرنے آئے ہیں؟ اگر یہی مقصد ہے زندگی کا تو جانوروں میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟؟ اپنے ساتھ اشرف المخلوقات کا ٹیگ کیوں لگائے پھرتے ہیں؟؟ ہماری پیشانی میں اسم عظیم کیوں ہے؟؟ ہم خود کو اللہ کا خلیفہ کیوں کہتے ہیں؟؟ ہم اولیاء اور انبیاء کے وارث کیوں بنتے ہیں؟؟؟ یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات جنکا جواب ہمیں ایک قوم کے طور پہ ڈھونڈنا ہے۔ کیونکہ ہم من حیث القوم برے ہیں۔ ہماری برائی انفرادی نہیں ہے اجتماعی ہے۔ ہم نے کوئی زندگی کا شعبہ نہیں چھوڑا جسکا خانہ خراب نہ کیا ہو۔ یہاں تک کے نعت رسول اور حمد خدا کو نہیں بخشا۔ نعتوں کے بول اور ایسی لیرکس کے کوئی من چلا سن لے تو پاوں خود بخود تھرکنے لگ جایئں۔ ہمارے عملوں میں اتنی غلاظت ہے اور سوچ ایسی پسماندہ کہ سچائی پروان چڑھ ہی نہیں سکتی وہ دم گھٹنے سے مر جاتی۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیوں ہمارے لیے دعاوں میں نمازوں اور راتوں میں اٹھ اٹھ کر روتے تھے۔ کیونکہ وہ ہمارے کرتوتوں سے آگاہ تھے۔ آج بھی ہم نے انکو کس کرب میں مبتلا کر رکھا ہے یہ سوچ کے جسم لرزنے لگتا۔ بزرگان دین کے کلام کو جدید موسیقی کے نام پہ ایسا خوار کیا وہ بیچارے اپنے مزاروں میں ٹکریں مارتے ہوں گے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ ہم اپنے آباو اجداد کی قبروں کی لپائی بھی صرف مضبوطی کے لیے کرتے کہ کہیں وہ باہر نکل کر ہماری دھلائی نہ کر دیں۔ سچی۔۔
ہماری چوری چکاری اور کرپشن کا معیار اتنا گرا ہوا ہے کہ گنے کی چلتی ٹرالی سے گنا کھینچ لیتے، کسی سے پوچھے بغیرچھلیاں امرود مالٹے آم وغیرہ توڑ لیے۔ کسی کے گھر یا اپنے گھر کا سودا سلف لائے تو پیسے کھسکا لیے۔ ناکے پہ کھڑے پولیس والے 2 کپ چائے اور انڈے پہ مان گئے مطلب جس بھی لیول پہ ہم کچھ غلط کر سکتے ہم کرتے ہیں اپنی جان مار کے کرتے ہیں یعنی ہم نچلے سے نچلے اور اوپر سے اوپر والے ہر درجے کے کرپٹ اور چور ہیں۔ اور دکھ اس بات کا کہ اپنی ان خوبیوں کو ہم غلطی سمجھ کے نہیں adventure سمجھ کے بتاتے۔
کون لوگ ہیں ہم یار؟؟؟؟؟؟
(مصباح چوہدری)
یہ سوال میرے ذہن کی کھڑکیاں دروازے توڑ کر میری سوچ کی لہروں میں وقتی ارتعاش پیدا کر کے بے بسی کے سمندر میں دم توڑ جاتا ہے۔۔
کہ ہم کون ہیں؟
ہم ایک مہینے کے مسلمان، 10 دن کے حسینی، 3 دن کے اسمعیلی، ایک دن کے پاکستانی، ایک دن کیلئے وطن کے جانثار اور سرحدوں کے محافظ بن جاتے ہیں جبکہ سال کے باقی 319 دن؟؟؟؟؟ ہاں سال کے باقی دنوں میں ہم نفس کے دنبے کو خواہشوں کے چارے سے خوب پالتے ہیں۔۔ ان خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہم کرپٹ ہوتے ہیں، نااہل، دغا باز، جاہل مطلق، احمق، چور، شعبدہ باز، محور سے دور بس اپنی مستی میں مگن ہوتے ہیں۔ دس محرم تک ایسے مسلمان کے اہل مدینہ بھی گمان کریں کہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں نمازیں خوش اخلاقی جذبہ حسینیت سے ایسے سرشار کے لنگر تقسیم ہو رہا سبیلیں لگائی جارہیں دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے گھر جایا جا رہا۔ گانے فلمیں ڈرامے سب بند۔ بس ایک رات اور اگلی صبح 11 محرم۔۔کونسا لنگر کونسی ہمدردی کیسا دکھ سکھ۔۔؟؟؟؟
ہم کیا ہیں؟ ہم کیوں ہیں؟؟ کیا ہمارا کوئی مقصد حیات ہے؟؟ کیا ہم صرف اس دنیا میں کھانے پینے بچے پیدا کرنے اور مرنے آئے ہیں؟ اگر یہی مقصد ہے زندگی کا تو جانوروں میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟؟ اپنے ساتھ اشرف المخلوقات کا ٹیگ کیوں لگائے پھرتے ہیں؟؟ ہماری پیشانی میں اسم عظیم کیوں ہے؟؟ ہم خود کو اللہ کا خلیفہ کیوں کہتے ہیں؟؟ ہم اولیاء اور انبیاء کے وارث کیوں بنتے ہیں؟؟؟ یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات جنکا جواب ہمیں ایک قوم کے طور پہ ڈھونڈنا ہے۔ کیونکہ ہم من حیث القوم برے ہیں۔ ہماری برائی انفرادی نہیں ہے اجتماعی ہے۔ ہم نے کوئی زندگی کا شعبہ نہیں چھوڑا جسکا خانہ خراب نہ کیا ہو۔ یہاں تک کے نعت رسول اور حمد خدا کو نہیں بخشا۔ نعتوں کے بول اور ایسی لیرکس کے کوئی من چلا سن لے تو پاوں خود بخود تھرکنے لگ جایئں۔ ہمارے عملوں میں اتنی غلاظت ہے اور سوچ ایسی پسماندہ کہ سچائی پروان چڑھ ہی نہیں سکتی وہ دم گھٹنے سے مر جاتی۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیوں ہمارے لیے دعاوں میں نمازوں اور راتوں میں اٹھ اٹھ کر روتے تھے۔ کیونکہ وہ ہمارے کرتوتوں سے آگاہ تھے۔ آج بھی ہم نے انکو کس کرب میں مبتلا کر رکھا ہے یہ سوچ کے جسم لرزنے لگتا۔ بزرگان دین کے کلام کو جدید موسیقی کے نام پہ ایسا خوار کیا وہ بیچارے اپنے مزاروں میں ٹکریں مارتے ہوں گے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ ہم اپنے آباو اجداد کی قبروں کی لپائی بھی صرف مضبوطی کے لیے کرتے کہ کہیں وہ باہر نکل کر ہماری دھلائی نہ کر دیں۔ سچی۔۔
ہماری چوری چکاری اور کرپشن کا معیار اتنا گرا ہوا ہے کہ گنے کی چلتی ٹرالی سے گنا کھینچ لیتے، کسی سے پوچھے بغیرچھلیاں امرود مالٹے آم وغیرہ توڑ لیے۔ کسی کے گھر یا اپنے گھر کا سودا سلف لائے تو پیسے کھسکا لیے۔ ناکے پہ کھڑے پولیس والے 2 کپ چائے اور انڈے پہ مان گئے مطلب جس بھی لیول پہ ہم کچھ غلط کر سکتے ہم کرتے ہیں اپنی جان مار کے کرتے ہیں یعنی ہم نچلے سے نچلے اور اوپر سے اوپر والے ہر درجے کے کرپٹ اور چور ہیں۔ اور دکھ اس بات کا کہ اپنی ان خوبیوں کو ہم غلطی سمجھ کے نہیں adventure سمجھ کے بتاتے۔
کون لوگ ہیں ہم یار؟؟؟؟؟؟
(مصباح چوہدری)
Comments
Post a Comment