تحریر
"الفاظ تو آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں" یہ جملہ اکثر سماعت سے ٹکراتا ہے. تو جناب یہ اتنا آسان نہیں ہوتا. خیالوں کی راہ گزر پر بے لگام بھاگتی سوچوں کو الفاظ کی نکیل ڈال کر کاغذ کے پنوں میں باندھ دینا ایک انتہائی دشوار گزار عمل ہے. اور ہر بار یہ نکیل ٹھیک سے ڈلے اسکی کوئی گارنٹی نہیں سوار جتنا بھی ماہر ہو زرا سی چوک اسے میلوں رگیدتی رہتی ہے. کون جانے کتنی بار جسم چھلتا ہے. خون کے پھوہارے پھوٹتے ہیں راستوں پہ پڑی کنکریاں گھاؤ میں پیوست ہو کر درد کی شدت بڑھاتی ہیں. کتنی بار اشک پلکوں کی سیما کو توڑتے ہیں. کتنی بار امید کا دامن ہاتھ سے پھسلتا ہے. کتنی بار لفظوں کی رسی الٹا اپنے گلے پڑتی ہے. کتنی بار دم گھٹتا ہے. اور
کتنی بار لکھاری مرتا ہے.
پڑھنے والے جن آہوں پہ واہ وائی کرتے ہیں لکھنے والا ان سارے حالات سے گزرتا ہے. الفاظ یونہی پر اثر نہیں ہوتے. امید اور ناامیدی یقین اور بے یقینی کے پل صراط پر سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر تحریر میں جان پڑتی ہے اور وہ زینت ورق بنتی ہے.
مصباح چوہدری
کتنی بار لکھاری مرتا ہے.
پڑھنے والے جن آہوں پہ واہ وائی کرتے ہیں لکھنے والا ان سارے حالات سے گزرتا ہے. الفاظ یونہی پر اثر نہیں ہوتے. امید اور ناامیدی یقین اور بے یقینی کے پل صراط پر سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر تحریر میں جان پڑتی ہے اور وہ زینت ورق بنتی ہے.
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment