ریپ
ریپ
کہنے کو لفظ لکھنے کو ایک سوچ سہنے کو نری موت اور حقیقت میں پوری انسانیت کے تن سے عزت کا لباس اتار پھینکنا اور اسکو برہنہ کرکے کسی چوراہے میں لا کھڑا کرنا ہے... اس مملکت خداداد میں ہر روز انسانیت کسی کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہے بچیاں بچے کوڑے کے ڈھیروں سے کماد کے کھیتوں سے راجبے کی ریتوں سے نہروں کی پلوں سے ہوس کے پنوں میں لپٹے ملتے ہیں عدالتوں کے چیمبر تھانوں کی جیلیں اور اسپتالوں کے مردہ خانے تک اس جسم کی بھوک سے محفوظ نہیں ہیں..... یہ کس راستے کو اختیار کر لیا ہے ہم نے؟؟اسکی منزل کیا ہوگی ؟؟؟ بچے عورتیں جو جنگ کے دنوں میں بھی محفوظ سمجھے جاتے تھے آج اپنے گھروں میں محلوں میں محفوظ نہیں ہیں.... کیوں؟؟؟ کوئی مجرم پکڑا جائے تو سزا ملنے میں اتنا عرصہ لگ جاتاہے کہ اس میں کئی اور واقعات ہماری کہانیوں میں شامل ہو جاتےہیں...اور کیا اس فرد واحد کو سزا دینا کافی ہے؟؟ مجھے لگتا ہے کہ نہیں کیونکہ کسی واقعہ کی منزل تک پہنچنے والا مجرم کئی راستوں سے ہو کر گزرتا ہے جب ان راستوں پہ پہرہ نہیں ہو گا لوگ ایسی منزلوں تک پہنچتے رہیں گے انسانیت بے بس سے لٹتی رہے گی.. یہ وہی راستے ہیں جن براجمان ہیں بھوک و افلاس, محبت میں دھوکے, نکاح کی مہنگائی, دین سے دوری, عقیدے کی ناپختگی معاشرتی محرومیوں کے پھندے, رشتوں کی تلخیاں, ماں باپ بہن بھائیوں کی لڑائیاں, تربیتوں کا فقدان,اخلاقی زوال, دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم, طبقاتی کشمکش, مادیت پرستی, حرص و لالچ, منفی رویوں اور سوچوں کی یلغار اسکو ہوا دیتے گھروں میں موجود ٹیلی ویژن جسکے شوز میں روز غربت کا مزاق اڑایا جاتا لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا اور مایوسی کے اندھیروں کو مزید گھنا کرتی خبریں.. اور ہاتھ میں موجود موبائل جسکے سوشل میڈیا پہ ہونے والی روز کی محبتیں جسم کی اشتہا بڑھانے والی باتیں ڈیجیٹل سیکس اور پورن ویڈیوز وغیرہ جو انسان کو اس حد تک اندھا کر دیتے ہیں کہ اسے اپنی وقتی تسکین کے سوا کچھ اچھا برا دکھائی ہی نہیں دیتا..یہ وہ مگرمچھ ہیں جو کسی بھی کمزور بندے کو اسکے معیار سے گرانے اور اندر تک کی اچھائی کو چٹ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں.. جب تک ہم انکا تدارک نہیں کر سکتے تب تک کونے کھدوروں میں جہاں جسکو موقعہ ملے گا اپنی فرسٹریشن نکالے گا اور غلاظت و گندگی میں بھرے گناہ کو اپنا وقتی سکون مانے گا..اور مجرم ہم سب ہونگے کیونکہ اس نہج تک لانے والا یہ معاشرہ ہےہم سب ہیں .. اگر انسانیت کو بچانا ہے تو ان بلیک ہولز کو بند کرنا ہو گا ورنہ ہر روز کوئی زینب کوئی حوض نور سر راہ پڑی ملیں گی... عمران کو عبرت ناک سزا ضرور دیں مگر نئے عمران پیدا تو نہ ہونے دیں...شکریہ
مصباح چوہدری
کہنے کو لفظ لکھنے کو ایک سوچ سہنے کو نری موت اور حقیقت میں پوری انسانیت کے تن سے عزت کا لباس اتار پھینکنا اور اسکو برہنہ کرکے کسی چوراہے میں لا کھڑا کرنا ہے... اس مملکت خداداد میں ہر روز انسانیت کسی کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہے بچیاں بچے کوڑے کے ڈھیروں سے کماد کے کھیتوں سے راجبے کی ریتوں سے نہروں کی پلوں سے ہوس کے پنوں میں لپٹے ملتے ہیں عدالتوں کے چیمبر تھانوں کی جیلیں اور اسپتالوں کے مردہ خانے تک اس جسم کی بھوک سے محفوظ نہیں ہیں..... یہ کس راستے کو اختیار کر لیا ہے ہم نے؟؟اسکی منزل کیا ہوگی ؟؟؟ بچے عورتیں جو جنگ کے دنوں میں بھی محفوظ سمجھے جاتے تھے آج اپنے گھروں میں محلوں میں محفوظ نہیں ہیں.... کیوں؟؟؟ کوئی مجرم پکڑا جائے تو سزا ملنے میں اتنا عرصہ لگ جاتاہے کہ اس میں کئی اور واقعات ہماری کہانیوں میں شامل ہو جاتےہیں...اور کیا اس فرد واحد کو سزا دینا کافی ہے؟؟ مجھے لگتا ہے کہ نہیں کیونکہ کسی واقعہ کی منزل تک پہنچنے والا مجرم کئی راستوں سے ہو کر گزرتا ہے جب ان راستوں پہ پہرہ نہیں ہو گا لوگ ایسی منزلوں تک پہنچتے رہیں گے انسانیت بے بس سے لٹتی رہے گی.. یہ وہی راستے ہیں جن براجمان ہیں بھوک و افلاس, محبت میں دھوکے, نکاح کی مہنگائی, دین سے دوری, عقیدے کی ناپختگی معاشرتی محرومیوں کے پھندے, رشتوں کی تلخیاں, ماں باپ بہن بھائیوں کی لڑائیاں, تربیتوں کا فقدان,اخلاقی زوال, دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم, طبقاتی کشمکش, مادیت پرستی, حرص و لالچ, منفی رویوں اور سوچوں کی یلغار اسکو ہوا دیتے گھروں میں موجود ٹیلی ویژن جسکے شوز میں روز غربت کا مزاق اڑایا جاتا لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا اور مایوسی کے اندھیروں کو مزید گھنا کرتی خبریں.. اور ہاتھ میں موجود موبائل جسکے سوشل میڈیا پہ ہونے والی روز کی محبتیں جسم کی اشتہا بڑھانے والی باتیں ڈیجیٹل سیکس اور پورن ویڈیوز وغیرہ جو انسان کو اس حد تک اندھا کر دیتے ہیں کہ اسے اپنی وقتی تسکین کے سوا کچھ اچھا برا دکھائی ہی نہیں دیتا..یہ وہ مگرمچھ ہیں جو کسی بھی کمزور بندے کو اسکے معیار سے گرانے اور اندر تک کی اچھائی کو چٹ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں.. جب تک ہم انکا تدارک نہیں کر سکتے تب تک کونے کھدوروں میں جہاں جسکو موقعہ ملے گا اپنی فرسٹریشن نکالے گا اور غلاظت و گندگی میں بھرے گناہ کو اپنا وقتی سکون مانے گا..اور مجرم ہم سب ہونگے کیونکہ اس نہج تک لانے والا یہ معاشرہ ہےہم سب ہیں .. اگر انسانیت کو بچانا ہے تو ان بلیک ہولز کو بند کرنا ہو گا ورنہ ہر روز کوئی زینب کوئی حوض نور سر راہ پڑی ملیں گی... عمران کو عبرت ناک سزا ضرور دیں مگر نئے عمران پیدا تو نہ ہونے دیں...شکریہ
مصباح چوہدری
Buht acha likha apny r bilkul thk kaha hai
ReplyDelete
ReplyDeleteMashaAllah aap nay bohut tufseel say hmaray moashray main phelay iss nasoor ki nshan dehi ki hay, ab bhi hmari aankhain na khulain to keya kaha ja sukta hay