کہی ان کہی

ہمارے ہاں جوانی کی دہلیز پہ قدم دھرتے ہی جہاں ایک طرف جذبات کی ریل پیل ہوتی وہیں ضروریات کی ایک لمبی فہرست. سترہ سے بیس سال کی عمر عموماً خواب بننے کی ہوتی ہے جہاں لڑکیاں کسی ہیرو کی بانہوں میں بانہیں ڈالے برستے بادلوں تلے ہوا کے سنگ لہراتے آنچل کو آذاد چھوڑے محبت کے گیت گانا چاہتی ہیں اور لڑکے آغوش محبوب میں سہانے مستقبل کے خواب سجانا چاہتے ہیں مگر حالات کی ستم ظریفی کہ ہمارے ہاں ناں ہی ان گیتوں کی کوئی وقعت ہے اور ناں ہی ان خوابوں کی. مادیت پرستی کے مارے لوگ محبت کی بجائے آسائشات کو ترجیح دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ رشتہ جوڑتے وقت پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے کماتا کتنا ہے گھر بار کیسا ہے؟ لڑکی کتنا پڑھی نوکری کرتی کے نہیں باپ بھائی کیا کرتے ہیں؟ مگر پوچھنے والے نہیں جانتے کہ یہاں بس جھولیاں محبتوں کے پھولوں سے بھری ہیں آنکھوں میں ان گنت خوابوں کی خماری ہے اور دل میں کئی جذباتوں کی ہلچل. افسوس کہ اس دین کے پیروکار جسکا خدا اپنے رازق ہونے کا دعوی کرتا ہے اور جسکی تعلیمات میں ہے کہ رزق عورت کے مقدر سے ملتا ہے ان ساری باتوں کو در خور اعتنا سمجھتے ہیں. کوئی نہیں سمجھتا کہ وقت کے فرعون اپنی ہی اولادوں کو کس اندھے کنویئں میں دھکیل رہے ہوتے ہیں.معصوم آنکھوں میں قربتوں کے سپنے سجائے نوجوان دن رات محنت کرتے ہیں اپنا گھر بار بناتے ہیں اپنی بریاں اور بہنوں کا جہیز اکٹھا کرتے ہیں. اس عمل میں بالوں میں اترتی سفیدی جذبات پہ برف کی طرح جم جاتی ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ وقت کی بھٹی میں جل کہ اب یہ کندن ہوگئے ہیں لہذا اب آسانی سے گھر کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے ایک اچھا مستقبل دے سکتے ہیں.لیکن انکو کیا پتہ کہ حالات ساز گار ہونے تک آلات سازگار نہیں رہتے. محسوسات سازگار نہیں رہتے.کئی سالوں کی انتھک محنت نیندوں کے ساتھ کتنے خواب لے جاتی ہے یہ بات کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی ایسےمیں تو بس کرچیاں رہ جاتی ٹوٹے بسرے خوابوں کی جو نہ رونے دیتی ہیں نہ سونے دیتی ہیں. بل آخر شادی کا دن آجاتا ہے خوب دھوم دھام سے کسی عاشق نا مراد کی بارات نکلتی ہے اور سارے خوشی سے جھوم رہے ہوتے ہیں سوائے دلہا دلہن کے. جو بیچارے پریشان کہ اب کریں گے کیا؟ انکی حالت کسی پرانے گرد آلود صوفے جیسی ہوتی ہے جسکا فریم اندر سے سارا کھوچل ہو چکا ہو یہاں تک وقت کی دھول اسکی پوشش سے نرمی تک چھین لے. ایسے میں وہ لوگ شادی کسی جذباتی وابستگی کے تحت نہیں کرتے بس لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کرتے ہیں جنکو بڑھتی عمر کی فکر ہر وقت ستائے رکھتی ہے یہ عمل بالکل ڈاکٹر کے بتائے گئے کسی نسخے کی طرح ہوتا ہے جس سے انکی جسمانی بیماریاں دور ہو سکیں اور بڑھاپے میں وقت کاٹنے کو کسی کا ساتھ بھی میسر ہو. جس سے زندگی کی ساری تلخیاں بانٹ سکیں. ایسی شادیاں نہیں سمجھوتے ہوتے ہیں. صرف سمجھوتے
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

گینگ ریپ

طلاق

سب بکتا ہے