دلخراش


پچھلے دنوں کی تیز دھوپ اور بارشوں نے جہاں انتظامیہ کی کارکردگی کی کلئی کھولی وہیں انکی مفلوج دماغی حالت کا اظہار بھی سر عام کیا. کسی ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ چمچوں کڑچھوں کا ہونا ایک بہت عام سی بات ہے مگر انکے ساتھ کسی سرکاری ادارے کے آفیشل کا یوں چھتری پکڑے چلنا سبکو اچھنبے میں ڈال دیتا ہے. دونوں فریقین میں گریڈز کا فرق ضرور ہوتا ہے مگر دونوں چونکہ سرکاری ملازم ہیں لہذا کسی پولیس والے کو شایاں نہیں کہ کسی اے سی یا ڈی سی کے ساتھ بارش یا چلچلاتی دھوپ میں چھتری پکڑ کے چلے. اور نہ ہی کسی بیوروکریٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی سرکاری ملازم کے ساتھ ایساتوہین آمیز سلوک روا رکھیں.یہ بات نہ صرف اس افسرِ شاہی کے اخلاقیات سے خالی عملوں کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ یہ اسکی سوچ کی غلامی کا اظہار بھی کرتی ہے. انگریز چونکہ برصغیر کے لوگوں کوکمتر سمجھتے تھے اس لیے انکے ساتھ غلامانہ سلوک کیا جاتا تھا مگر دونوں ممالک کی آذادی کے بعد تو موقف اصولی طور پہ بدل جانا چاہیے تھا کیونکہ نوکر شاہی کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے ناکہ انکو حقیر جاننا. جو لوگ اپنا چھاتا خود نہیں سنبھال سکتے وہ ملکی باگ دوڑ کیسے سنبھال سکتے ہیں؟ خدارا اس گندی پلید سوچ سے اب باہر آجائیے. کسی سرکاری افسر کی آمد پہ ہوٹر لگانا. روڈ بند کر کے عوام کی مشکلات میں اضافہ. اور سرکاری دفاتر میں عوام الناس کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک, ماتحت کو جوتے کی نوک پہ رکھنا صرف اور صرف آپکا احساس کمتری اور انگریزی پٹھو ہونا ظاہر کرتا ہے افسر ہونا نہیں. لوگوں کی فلاح میں اپنا کردار ادا کریں. جہاں تک ہو سکے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں. اور یاد رکھیں آپکی تنخواہ عوام کے پیسوں سے آتی ہے. آپکا عہدہ ملازم کا ہے آقا کا نہیں. یہ عہدہ آپکی ذات آپکے کردار اور اخلاق کا اظہار ہی نہیں کرتا بلکہ اوقات بھی دکھاتا ہے. 
تھوڑا سوچیے.اور اب کی بار خدارا سوچ ہی لیجیے
شکریہ
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

گینگ ریپ

طلاق

سب بکتا ہے