بیٹیاں
میں سوچ رہی تھی ہم جتنے بھی تعلیم یافتہ اور آذاد خیال ہو جائیں بیٹیوں کو مساویانہ حقوق دینے کہ ہمارے دعوے ہمیشہ کھوکھلے ہی رہیں گے.ہم فرط جذبات میں ان سے یہ کہہ دیتے کہ بیٹا تم آذاد ہو اپنے ہر فیصلے میں جتنا مرضی پڑھو اور اگر کوئی پسند ہو تو ہمیں بتانا.تمھاری خوشی میں ہماری خوشی ہے.مگر یہ سب جذباتی باتیں ہیں.سچ تو یہ ہے کہ بیٹیوں کے حوالے سے آیا ہوا رشتہ ہمیشہ مشکوک ہوتا ہے اس انسان کی اچھائی کا دعوی بھلے ساری خدائی کرے مگر یہ معلومات معیاری نہیں ہوتیں اسکے برعکس بیٹے یا رشتے والی کے توسط سے آنے والا رشتہ قابل بھروسہ ہوتا ہے کم از کم اتنا کہ اسکو دیکھا جا سکے. اور ان کے ذریعے حاصل ہوتے والی معلومات مستند ہوتی ہیں. کیا بیٹیاں سچ میں برابر ہوتی ہیں؟ اگر انکی رائے اتنی غیر اہم ہے تو آذادی کا پٹہ ڈال کر انہیں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ انکے حقوق صلب کرنے ہیں تو شعور کی بیداری کی ضرورت کیوں ہے؟ پتہ ہے جب جان جاتی ہیں نا اپنا مقام تو زیادہ ٹوٹتی ہیں اور اسطرح بکھرتی ہیں کہ کبھی جڑ نہیں پاتیں. یوں بے اعتباری ہو جاتیں ہیں کہ پھر کوئی قابل اعتبار نہیں رہتا. اتنی کمزور ہو جاتیں کہ پھر کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی ساری زندگی. مگر کہنے والے کیا جانیں کہ سہنے والی کتنے عذاب سہتی ہیں. شاید اسی لیے بیٹیاں کہلاتی ہیں.
مصباح چوہدری
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment