کائیاں لوگ
پتہ نہیں یہ محبتوں کی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آتی.شاید اسلیے کہ ہم لوگ بڑے کائیاں ہوتے ہیں ایک بار جان لیں کہ کوئی ہم پہ جان وارتا ہے تو جان لے کے ہی چھوڑتے ہیں. ہم آذاد رہنے والے لوگ ہیں محبت کی زنجیر سے بندھ کر کسی ایک کا ہو کے رہنا ہم نے سیکھا ہی کب ہے؟ یا یوں کہہ لیں کہ ہمارے پاوں بہت سی مجبوریوں کی زنجیروں سے بندھے ہیں ایسے میں محبتوں کے دعوے کر کے کسی کو دل میں جگہ تو دے سکتے ہیں مگر اپنا نام دے کر گھر کی عزت بنانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے. ہم چاہتے ہیں کوئی ہمارا کلمہ پڑھے, کسی کے ہونٹوں پہ ہمارے نام کے چھالے ہوں. مگر یہ سب جذبے وقتی ہوتے ہیں حالات کی ایک سوئی سے محبتوں کے غبارے سے آشنائی کی ہوا یوں نکلتی ہے کہ جیسے کبھی شناسائی نہ ہو. تب ہمیں ساری مجبوریاں یاد آجاتی ہیں. کتنا عجیب ہے ناں لوگ ہمارے لیے آپشنز ہوتے ہیں یا ٹشو پیپرز اپنی پسند کو پھینکا ماں باپ بہن بھائیوں کی پسند کا اٹھا لیا اور آخر میں سب کچھ نصیب کے کھاتے میں ڈال کر اپنا پلا جھاڑ کے ہوں بری الزمہ ہو جاتے ہیں جیسے کچھ کیا ہوا ہی نہیں.
مصباح چوہدری
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment