ان چاہی اولاد

ان چاہی اولاد
کہتے ہیں کہ بچے بہت شرارتی ہوتے ہیں. تو کیوں نہ ہوں بھئی ماں باپ کی شرارتوں کا نتیجہ ہیں تو شرارت تو انکے جینز میں ہوئی. مگر والدین کی یہ شرارت ضروری نہیں بچے پیدا کرنے کی نیت سے ہو. کئی بار یہ صرف تسکین نفس کے لیے ہوتی ہے جسکے نتیجے میں ان چاہی اولاد کا وجود چاہتوں بھری زندگیوں میں شامل ہوجاتاہے. مگر افسوس یہ چاہتیں بچوں کے لیے راحتیں نہیں بن پاتیں. مرد کو لگتا ہے کہ بچہ آنے سے اسکی اہمیت کم ہوگئی ہے عورت اسکی بجائے بچے کو وقت دینے لگی ہے جو سراسر غلط ہے. ایسے میں لوگ اپنے ہی بچے کو رقیب ماننے لگتے ہیں. مرد کی جسم کی تسکین کی خواہش اور عورت کا کہنا کہ دن رات آپ کے بچے کو سنبھالوں یا آپکا بستر گرم رکھوں میں بھی انسان ہوں نہیں کر سکتی. ایسے میں اندھی خواہشیں سر پہ چڑھ کے ناچنے لگتی ہیں. جسم کی شدید طلب گھروں میں اکثر لڑائی کا بازار گرم رکھتی ہے. اور بچے بیچارے سہمے بس دیکھتے رہ جاتے ہیں. انکا معصوم زہن بس سوچتا رہتا ہے ان گالیوں کا ان لڑائیوں کا جو انکی زندگی سے سکون چھین چکی ہوتی ہیں کیا انجام ہو گا. سارا دن لڑائی میں گزارنے کا بعد اگلی صبح جب ماں اور باپ دونوں ہنسی مزاق کرتے بچوں کے سامنے آتے ہیں تو انکو سمجھ نہیں آتی کہ کونسی گدڑ سنگھی رات و رات سونگھی اور صبح ٹھیک ہوگئے. والدین اس عمل میں گھر سے صرف آرام و سکون نہیں تیاگتے بلکہ بچوں کی زندگی سے یقین, بھروسہ اور اعتبار نامی پھولوں کو بھی سپرد بےاعتباری کر دیتے ہیں. کوئی خوف انکے دل میں ہمیشہ کے لیے گھر کر جاتا ہے. اپنے اہم نہ ہونے کا وہم انکو رشتوں سے دور لے جاتا ہے. اور پھر وہ بیج جو والدین نے بچپن میں بویا ہوتا ہے اپنے روز کے ہنگاموں کا پانی دے کر پروان کیا ہوتا ہے اسکی چھایہ میں پھر کئی لوگ جلتے ہیں. اولاد نے کبھی بھرم رکھنا نہیں سیکھاہوتا کسی کا مان کیسے رکھتے ہیں وہ نہیں جانتے ہوتے. مگر بڑھاپے میں وہی والدین چاہتے ہیں ان سے محبت کی جائے انکے رشتے کا مان رکھا جائے انکی محبتوں کا بھرم رکھا جائے. اس سبکی تمنا کس سے اور کیونکر؟.جسکو سکھایا ہی نہیں گیا وہ کہے کا پاس کیسے رکھ سکتا ہے؟؟ وہ بوئے ہوئے کو کاٹنا مشکل ہوجاتا ہے اور گندی اولاد کا طعنہ دے کر ان چاہے بچوں کا اشتہار لگایا جاتا ہے. انکے ظلم کے قصے بیان کیے جاتے ہیں. اور بتایا جاتا ہے کہ کیسے حکم عدولی کی گئی. کیسے روتا چھوڑا گیا اور کیسے گھر سے نکالا گیا... مگر جو نہیں بتایا ہے وہ تربیت ہے. جسکا بیوی سے لڑائی پہ بچوں کو گالیاں دیتے ہوئے نہیں سوچا گیا. ناراض ہوکے میکے جانے پہ سسرال کا گند ان کے منہ پہ مارتے ہوئے نہیں جانا گیا. کبھی اس احساس کی بات ہی نہیں کی گئی جس نے اولاد کو انکے اہم ہونے کا یقین دلایا ہو. یہاں تو بس ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جن میں اولاد ایک ان چاہا ناپاک نطفہ ہے جو تسکین کے نشے میں بو دیا گیا.اس سے زیادہ کوئی وقعت نہیں اسکی
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

گینگ ریپ

طلاق

سب بکتا ہے