بلی کا ریپ
بلی کے بچے کا ریپ کوئی نئی بات نہیں ہے. بدقسمتی سے اشرف المخلوقات کے ٹیگ کے ساتھ پیدا ہونے والا انسان جب مقرر کردہ راستوں کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو ابلیس بھی مارے شرم "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" پڑھنے پہ مجبور ہو جاتا ہے. بلی بکری بھیڑ بھینس کونسا جانور ہے جس سے انسان نے نفسانی خواہش کی تسکین نہ کی ہو. بکریوں کے ریوڑ میں موجود کئی بکریاں حوس کی بھینٹ چڑھتی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں. افسوس کہ کتے جیسے جانور کو نہیں بخشا جاتا. مسلمانیت تو دور کی بات ہے کیا ہم انسانیت کے کسی درجے میں بھی آتے ہیں؟ عورت مرد بچے جانور کونسی مخلوق ہے جہاں تخم انسان بونے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کبھی سوچا ہے قومیں ترقی کب کرتی ہیں؟ قومیں ترقی تب کرتی ہیں جب جسم کی خواہش انکی ترجیحات سے نکل جاتی صرف مقصد کی پاسداری سامنے ہوتی ہے. اب وہ مقصد کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا بھی ہوسکتا ہے اور آسمانوں پہ کمند ڈالنا بھی. مگر ہمارے ہاں اول و آخر مقصد جسم کا حصول ہے. ایک کے بعد ایک جسم, کمزور طاقتور کٹیلہ نشیلا لچیلا ہر طرح کا جسم. کبھی فرصت ملے تو سوچیں کہ کیا فرق ہے ہم میں اور ان جانوروں میں جو گلی محلوں میں فقط کھانے سیکس کرنے اور مرنے کے لیے جیتے ہیں؟ اب کسی سیکولر سے اگر رائے مانگی جائے تو جواب آئے گا کہ سیکس کی اجازت دے دی جائے شادی کا ڈھول گلے میں باندھے بغیر کھلے جسم جو بھی استطاعت میں ہو اور نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو گورنمنٹ اپنائے اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح انہیں آرمی جیسے اداروں میں بھیج دیا جائے کیونکہ انکا آگے پیچھے ہوگا کوئی نہیں لہذا اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی نہیں کریں گے اور ملکی مفادات کو ہی سب کچھ مانیں گے. مگر یہ بھی تو سوچیں کہ ان بچوں کا کیا قصور ہے جنکو اپنی تسکین کے لیے پیدا کیا جائے اور پھر ہر رشتے کی محبت سے محروم رکھا جائے. اس سے بہتر نہیں کہ اسلام کے اصولوں کو اپنایا جائے اور شادی کے لیے لوازمات ختم کر کے سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں اولاد کو بیاہ دیا جائے. آپ اٹھارہ سال عمر کی حد بندی کر رہے ہیں شادی کے لیے اور سیکس کے لیے عمر کا تعین آج تک نہیں کر پائے. اسلام نے مقصد دیا ہے بار بار فرمایا "علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں" "رات اور دن کے بدل بدل کر آنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے" اور اس طرح کی کئی آیات ہمیں ہمارے مقاصد سے آگاہی کا درس دیتی ہیں. مگر ہم ان پہ غور تبھی کر پائیں گے جب جسم ہماری اولین ترجیح نہیں ہو گا. ہم نفس کے جال سے نکلیں گے تو کائنات کے دروازے کھلیں گے اور اس سے نکلنے کا بہترین راستہ بلوغت تک پہنچتے شادی کا ہے. فیصلہ ہم سبکو کرنا ہے..شادی یا پھر بربادی.
ذرا سوچیے
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment