رشتے دار

معذرت کے ساتھ
بہت سی باتیں وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آتی ہیں مگر ان کے سمجھ آنے تک ہم اپنی سوچ کے زہر سے کئی زندگیوں کو ڈس چکے ہوتے ہیں. جیسا کہ "بہن برا مت ماننا تمھاری جوان بیٹی ہے اور تم نے گھر میں کیبل لگوا رکھی ہے. اللہ معاف کرے نری خرافات ہے یہ" پھر توبہ توبہ فلاں کی بیٹی نے اتنا میک اپ کیا ہوا تھا. پتہ نہیں کس کو دکھانا ہے ہم تو اللہ میاں کی گائے تھے لپ سٹک بھی زندگی میں پہلی بار اپنی شادی پہ لگائی اور تو اور کپڑوں پہ تزکرے کہ ہائے ہائے "کی ستھنیاں جیاں پایاں ہویاں ساریا لتاں نظر آندیاں, لنڈیاں پچیاں قمیضاں, گلے ویکھو تے قمیض دی فٹنگ قہر خدا کا انگ انگ نظر آتا ہے" ہائے تم نے باجی کے بیٹے کو دیکھا ہے کانوں میں ٹوٹیاں لگائے ہر وقت موبائل پہ لگا رہتا. بہن بھی موبائل نہیں چھوڑتی اور ناخن دیکھ اتنے بڑے, حرام کھاتے ہیں سارے. کہہ دو تو دشمن سمجھتے ہیں ہمیں کیا جب قبر میں سانپ اور بچھو آئے تب پتہ چلے گا. یہ اور اس طرح کی ہزار باتیں پھوپھیاں ماسیاں چاچیاں کرتی رہتی ہیں. مگر جب انکی اولادیں جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھیں تو میک اپ سے اٹے چہرے, فیٹنگ والے کپڑے لمبے ناخن, موبائل کا استعمال, بوائز کالج میں پڑھنا, لڑکوں سے بات چیت سب کا سب فیشن کا حصہ اور وقت کی اہم ضرورت بن جاتا ہے. پھر موبائل کے ساری رات استعمال کو فخر سے بتایا جاتا کہ بچے دن میں سوتے ہیں رات کو سو کام کرنا ہوتا کبھی پڑھ لیتے کبھی بور ہو کے موبائل اٹھا لیتے ہیں. پھر تو رات بھر انگریزی فلمیں موبائل میں دیکھنے پہ قبر میں جہنم کا دروازہ نہیں کھلتا نہ ہی کوئی سانپ بچھو آتا ہے. تب تو پسند کی شادی اور ذات سے باہر شادی بھی معنی نہیں رکھتی. وہ جو فرماتے تھے کہ خاندان سے باہر شادی پہ نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں اب پسند اور غیر ذات میں شادی کرنے کا یوں دفاع کرتے نظر آتے کہ ان سے اچھا وکیل تو دنیا میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا. اس ماڈل کو بنانے کے بعد اللہ نے فیکٹری ہی بند کر دی. کمال کے لوگ ہوتے ہیں یہ رشتے دار بھی دوسروں کی اولادوں سے کام لیتے وقت انکے بارے فیصلے صادر فرماتے وقت اپنے ہونے کا پورا حق استعمال کرتے ہیں مگر جب باری اپنی اولاد کی آتی ہے تو انہیں یاد آجاتا کہ ماں باپ سے بہتر فیصلہ کسی کا نہیں ہو سکتا. بندہ پچھے کہ "تہاڈی اولاد لئی فیشن کرنا باہر کھانا کھانا, میک اپ کرنا, جدید آلات تے جدید لباس استعمال کرنا سب جائز اے. تے دوسریاں دیاں اولاداں کی مست ہندیاں, اوہ فیشن نہیں کر سکدیاں". پتہ نہیں کیوں سب اپنی اولادوں کے لیے ماڈرن بن جاتے ہیں. جبکہ دوسروں کی اولاد کو دیکھتے ہی ہمارے اندر کا مولوی جاگ جاتا اور فتوی لگانا شروع کر دیتا ہے.بندہ کسی کی زندگی میں اُتنا ہی دخل دے جتنا خود برداشت کر سکے. اپنی اولادوں کو ٹھیک بات سمجھائی بھی غلط لگتی ہےجبکہ دوسروں کے معاملے میں ہم بات کرتے نہیں تھکتے. ایسا نہیں کہ دوسروں پہ مان نہ کریں یا انکو سمجھائیں نہ مگر بات صرف اتنی سی ہے کہ جو دوسروں کے کتے کو کتا اور اپنے کو ٹومی نہ کہیں. دونوں کو برابر رکھیں. دوسروں کی زندگی میں اس حد تک ہی دخل دیں جتنا خود اپنی زندگی میں برداشت کر سکتے ہیں. اگر خود برداشت نہیں کر سکتے تو خاموش رہیں جینے دیں دوسروں کو بھی
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

گینگ ریپ

طلاق

سب بکتا ہے