انسان اور جانور
کہتے ہیں انسان کی زندگی پہ اس کے ارد گرد کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں. وہ جو دیکھتا ہے اس سے سیکھتا ہے جو کھاتا اسکی تاثیر اسکے خون میں شامل ہو کر اپنا رنگ دکھاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ اسلام میں حلال اور حرام کا تصور بہت اہمیت رکھتا ہے. کبھی سوچا ہے اسلام ہمیں بکرے مرغی مچھلی بھیڑ اونٹ گائے اور بھینس وغیرہ تک ہی کیوں محدود کرتا ہے. حتی کہ مگرمچھ کا گوشت بھی مچھلی کی طرح ہوتا ہے جبکہ سور کا گوشت بھیڑ بکری یا گائے بھینس کی نسبت زیادہ لذیذ اور طاقت بخش ہوتا ہے. اسکی وجہ انسان کو محفوظ رکھنا تھا سور کی عادات سے. کہا جاتا ہے کہ ایک سورنی گروپ میں موجود تمام سور سے ایک وقت میں مباشرت کرتی ہے تو گروپ میں موجود تمام سور اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں گروپ سیکس کا تصور بھی شایداسی سے لیا گیاہے. اور شک نہیں کہ خنزیر کے گوشت کا ہی اثر ہو جو جو انسان حیوان بنا جاتا ہے. یہ جانوروں کے ساتھ رہنے کا اور عادتوں سے سیکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ کئی سو سال بعد بھی انسان موقع پرست شیر کی طرح گھات لگاتا ہے. بھیڑیوں کی طرح جھنڈ میں حملہ کرتا ہے. گدھ کی طرح مردار کھاتا ہے. لاشوں کی قیمت لگانا اور خوبصورت مردہ لڑکیوں کے جسم سے اپنے نفس کی تسکین کرنا انسان کا ہی خاصہ ہے. بات یہاں پہ ہی ختم نہیں ہوتی. کہتے ہیں عورت کی سات نسلیں ہوتی ہیں جن میں سے دو جانوروں سے منسلک ہیں جیسے زیادہ پھرنے والی عورت بلی کی نسل سے کہلاتی ہے. اور دوسری ریچھ کی نسل سے. یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے تو پھر یہ سب کیسے اسکی سرشت میں شامل ہو گیا؟. اس میں شک نہیں کہ انسان اشرف ہے مگر جب وہ اپنے مدار سے نکلتا ہے تو جانوروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے. پھر خود کو مہذب بنانے کے لیے مذہبی معاشری سماجی جتنی بھی پابندیاں لگائی ہوں انکو بالائے طاق رکھ کے نفس کی پیروی میں آسمان سے زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے. سائنس کہتی ہے کہ انسان جانوروں سے اس روپ میں آیا مگر میں اس بات کو نہیں مانتی کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ انسان کو انسان ہی بنایا گیا. پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جانوروں والی خاصیتیں کہاں سے لی گئیں تو جناب انسانوں اور جانوروں کا ساتھ ازل سے ہے اور تا ابد رہے گا. غاروں اور جنگلوں کا باسی جب شہروں کی طرف آیا تو جانور بھی ساتھ لے آیا اور جہاں جانوروں نے انسانوں سے بہت کچھ سیکھا وہیں انسانوں نے بھی انکی عادات کو اپنایا اور انکے دودھ اور گوشت کی تاثیر نے بھی اپنا رنگ دکھایا. گدھ کا ہی اثر ہو گا کہ انسان اور اور اور کی جستجو میں دن رات گزار دیتا ہے اسکا نفس کا دنبہ کبھی سیر نہیں ہوپاتا. اسی سیری کے لیے اس نے حلال کا رستہ چھوڑ حرام کا دامن تھاما ہے. اور پھر رزق حرام نے انسان کو اسکے منصب سے لا نیچے پھینکا یہ رزق حرام ہی ہے جس نے اندر سے انسان کو بدل دیا ہے اور اب اسے گناہ گناہ نہیں لگتا. اسکی حرص اور ہوس گزرتے وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے. اور بڑھتی ہی جا رہی ہے..... احساس, اخلاص اور انسانیت تو کھا گئی نجانے اگلا شکار کیا ہو؟؟؟
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment