منافق لوگ
کہتے ہیں جس کے قول اور فعل میں تضاد ہو وہ بڑا منافق ہوتا ہے. اگر ایسا ہے تو ہم پاکستانی یقیناً صفِ اول کے لوگوں میں آتے ہونگے. ہمارا ملک اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا اور پھر اس میں ہر روز اسلام بیچا گیا. عمل سے عاری لوگوں نے محض باتوں کو کب اپنا شیوہ بنا لیا کسی کو علم بھی نہیں ہوا. پچھلے دنوں ایک پورن سٹار کا بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے لکھا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں میرے داخلے پر مکمل پابندی ہے. مگر میرے سب سے زیادہ پرستار اسی مملکت خداداد سے تعلق رکھتے ہیں. پھر ایک چونکا دینے والی رپورٹ پڑھنا نصیب ہوا جس میں میرا ملک پورن ویڈیوز دیکھنے والے ممالک کی فہرست میں بھی اول درجے کے ممالک میں شامل تھا. مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے. ایک لمحے کو دل کیا کہ سارا ملبہ انڈیا پہ ڈال دوں انہوں نے اس رپورٹ میں ہمارا نام ڈلوایا ہونا. ورنہ میرے ملک میں تو پارسا بستے ہیں چھوٹی موٹی ہیرا پھیری تو ٹھیک اب ننگی فلمیں دیکھنا تو بڑا عذاب ہے اور میرے کمزور لوگ تو ہمیشہ استغفار کی تسبیح پڑھتے ہیں. نہیں نہیں یہ ضرور دشمن کی چال ہے. استغفار اللہ استغفاراللہ... ابھی اس کشمکش سے پوری طرح نکل نہ پائی تھی کہ شفافیت کے ادارے نے بھی بد عنوانی میں ہماری ترقی کر دی بس پھر کیا تھا یکایک منہ سے نکلا یہ اہل یہود کی سازش ہے مسلمانوں کے خلاف. بیڑا غرق ہو ان اسلام کے دشمنوں کا کبھی کسی رپورٹ میں ہمیں چھاپ دیتے کبھی کسی میں. جب اور کچھ نہیں بن پاتا تو ہماری اداکاروں کو چھوٹے چھوٹےکپڑے پہننے کا کہتے ہیں.اور میری معصوم عوام مجال کہ کبھی آنکھ بھر ان بیبیوں کو بھی دیکھتی ہو. کر کچھ نہیں کر سکتی تو دل میں دو چار گالیاں دے لیتی ہے مگر کبھی اسی اداکارہ سے ملنے کا موقعہ مل جائے تو سیلفی لینے میں یہی گالیاں دینے والے معصوم سر فہرست ہوتے ہیں. پڑھنے پڑھانے کی بات ہو تو منٹو اور اس جیسے خباثت لکھنے والوں پہ بیشار لعنت ڈالتے ہیں ٹھنڈا گوشت لکھنے پہ خوب لتاڑتے ہیں مگر ٹھنڈا گوشت سامنے آجائے تو چھوڑتے نہیں ہیں. ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جسمانی باتیں لکھنا گناہ ہے جبکہ جسم کے ساتھ سب کچھ کرنا جائز سمجھا جاتا ہے. جہاں بانو قدسیہ کی سیمی بہت بری ہے کیونکہ وہ بولڈ ہے بولتی ہے جسم کو زندہ رکھنے کے لیے جسم کی خوراک دیتی ہے مگر قیوم کے بھیس میں لپٹا گدھ اچھا ہے جو اندھیروں میں کونے کھدروں میں نوچتا ہے مگر اجالے میں نہایا دھویا صاف ستھرا اچھا بھلا. جہاں امتل نری خباثت ہے مگر پروفیسر سہیل فرشتہ ہے. کبھی ہمیں جھانکنا چاہیے اس گریبان میں کہ ہم وہ ہیں جنکی بہنیں بیٹیاں سالیاں بھتیجیاں بھانجیاں انکے باپ بھائی چاچا ماما کی وجہ سے حاملہ ہوتی ہیں. جہاں عورتیں شوہر کو اس وجہ چھوڑ کر آشنا کے ساتھ بھاگتی ہے کہ وہ اسکی جسمانی تسکین نہیں کرپاتا جہاں لڑکیاں خود کو انجیکشن لگاتی ہیں سر عام سگریٹ اور شراب نوشی کو اپنی آذادی سمجھتی ہیں. ہم کس ڈگر پہ چل پڑے ہیں؟ ہماری وراثت منافقت تو کبھی بھی نہ تھی. ہم تو عزتوں کے پاسدار تھے محبتوں کے علمبردار تھے. مگر اب ہم کیا ہیں؟ سر عام جن باتوں پہ مخالفت کرتے ہیں تنہائی میں انہیں باتوں پہ مزے لینے والے منافق.
مصباح چوہدری
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment