کرونا..اور ہم
کچھ چیزیں کچھ حادثات ہماری زندگیوں میں ایسے ہوتے ہیں جنکی بدولت ہم اپنوں میں چھپے غیروں کو پہچان پاتے ہیں. کل ایک ایسا ہی واقع میرے شہر میں ہوا. ایک لڑکی جو کہ چائنا میں زیر تعلیم تھی پہلے اسکو حکومت پہ دباو ڈال کہ وطن واپس بلایا گیا. کہ ہماری بیٹی دیارِ غیر میں اکیلی ہے. سکریننگ میں کلیئر قرار دینے کے بعد گھر روانہ کیا گیا اور کہا گیا کہ جیسے ہی آپ میں کوئی علامات ظاہر ہوں آپ ڈی ایچ کیو پاکپتن وزٹ کریں کل دس دن بعد اسکو فلیو اور کھانسی وغیرہ کی شکایت ہوئی گھر والوں کو لگا کہ کرونا وائرس ہے اسپتال جانے پہ کوئی لڑکی کے قریب نہیں جا رہا تھا نہ کسی کو جانے دیا جا رہا تھا. ہمارے ڈی ایچ کیوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا پوزیٹو کردار ادا کیا اور کہا کرونا ہے بس پھر کیا تھا گھر والے بھی علیحدہ. یہاں قابل ذکر امر یہ ہے ڈی ایچ کیو میں سکریننگ کی سہولت موجونہیں ہے. خیر اب لاہور لے جانے کی باری تھی اور حیرت کی بات یہ کہ ساتھ بیٹھنے کو کوئی تیار نہیں تھا. ریسکیو کے جوان اپنی سپیشل کٹ کے ساتھ اکیلی لڑکی کو لیکر لاہور روانہ ہوئے. تب تک اس لڑکی کی تصاویر لیک کر دی جا چکی تھی اور عملہ اسکو مان بھی رہا تھا کہ سسپیکٹ ہے. خیر لاہور پہنچنے پر سکریننگ ہوئی اور روپوٹس نیگیٹو آیئں. اور لڑکی کو اسی گاڑی میں واپس لایا گیا. لڑکی الحمداللہ ٹھیک ٹھاک اپنے گھر پہنچ گئی. مگر ہمارے معاشرتی رویوں پہ سوال اٹھا گئی. پہلی بات کہ والدین کا اپنی اولاد کی محبت میں اندھا ہونا جائز ہے مگر اپنی اولاد کی وجہ سے کئی اولادوں کی زندگیاں داو پہ لگانا کیا ٹھیک ہے؟؟ پھر بغیر سکریننگ کے کسی کو کرونا بتانا اور اسکی تصاویر عام کرنا وہ بھی سرکاری ادارے کی طرف سے کیا یہ ٹھیک ہے؟؟؟ اور آخری سوال کہ وہ اولاد جس کے لیے آپ نے حکومت سے درخواست کی یہاں تک کے لعن طعن بھی کی کہ ہمارے بچوں کی داد رسی نہیں کر رہے. پھر شک کی بنا پہ انکو اس طرح سے علیحدہ کر دینا ان سے منہ موڑ لینا انکو تنہا کر دینا کیا طمانچہ نہیں ہے احساس اور محبت کے ان دعووں کے منہ پہ جن کی بنا پر آپ اسکو لائے اپنے پاس؟؟ ہم تو مسلمان ہیں یہ مان کے چلنے والے کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے. پھر کسی بیماری کے ہاتھ میں موت کہاں سے آگئی؟؟؟ اور کیا کرونا کے بغیر موت ممکن نہیں؟؟ زرا سوچیے اگر کوئی بیمار ہے تو اس وقت اسکو سب سے زیادہ طاقت اپنوں کی محبت سے ملتی ہے. وہ محبت وہ چاہت بیماری سے لڑنے کی چاہ پیدا کرتی ہے اور مریض آخری سانس تک زندہ رہتا ہے. خدا کے لیے بیماری کی وجہ سے کسی کو اکیلا نہ کری اور یاد رکھیں اگر رتھ فاو نے یہی کیا ہوتا تو آدھا پاکستان اس وقت کوڑھ زدہ ہوتا ایدھی نے یہی کیا ہوتا تو آج اسکو کوئی جاننے والا نہ ہوتا. ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کسی کافر سے منہ نہیں موڑا ہم کسی اپنے منہ کیسے موڑ سکتے ہیں ان کے امتی ہونے کا تھوڑا سا تو حق ادا کریں ورنہ کس منہ سے امتی ہونے کا دعوی کریں گے؟؟؟....
✍🏻مصباح چوہدری
✍🏻مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment