ہم تھک ہی جاتے ہیں
کبھی کبھی ہم تھک جاتے ہیں ہمارے کندھے کسی نہ نظر آنیوالے بوجھ سے جھک جاتے ہیں حتی کہ ہم نے کوئی جسمانی مشقت نہیں کی ہوتی ایسے میں ہر آواز شور لگتی ہے اور ہر ملنے والا غیر.. یہاں تک کے اپنا آپ بوجھ لگنے لگتا ہے..ایسا لگتا ہے کہ ہم سے بدقسمت دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی اور لوگوں کے چہروں پہ منافقت کے بورڈ دکھائی دینے لگتے ہیں. جی چاہتا ہے کہ خود کو کسی اندھیر نگری میں بند کر لیا جائے جہاں نہ کسی کی آواز ہو نہ کسی کا ساتھ.... لوگ ایسے میں ہمیں بہت سے القابات سے نوازنے لگتے ہیں مغرور بگڑا ہوا بدتمیز جیسے خطاب ملنا تو روز کی بات ہو جاتی ہے.. مگر کوئی اندر نہیں جھانکتا کہ تھکن کس چیز کی ہے؟ یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ تھکن ان رشتوں کی ہوتی ہے جنکے ہم محض استعمال کی چیز تھے کبھی ہمارے کندھے ان امیدوں کے بوجھ سے بھی جھک جاتے ہیں جو ہم نے اپنوں سے دوستوں سے باندھی ہوتی ہیں ہماری زبان کی تلخی ان میٹھے بولوں کی دین بھی ہوتی ہے جنکی ہم نے ان اپنوں سے توقع کی ہوتی ہے اور یہ بیزاری کسی کے ساتھ چھوڑنے کی بھی ہوتی ہے. کبھی سوچا ہے کسی کی زندگی کے کسی حسین لمحے کو یادگار بنانے کے لیے ہم ہر چیز کی پرواہ کیے بغیر اسکے ساتھ کھڑے ہوں صرف اسکی خوشی کے لیے..مگر ویسا ہی لمحہ جب ہماری زندگی میں آئے تو لوگ مجبوری کی دیوار کے پیچھے چھپ جایئں اور ہم تنہا رہ جایئں. پھر یوں ہی ہوتا ہم تھک ہی جاتے ہیں کندھے جھک ہی جاتے ہیں اور آنسووں کے موتی پلکوں کے بند توڑ کر رخساروں پہ بکھر جاتے ہیں.
کبھی کبھی یونہی......ہم تھک جاتے ہیں
مصباح پوہدری
کبھی کبھی یونہی......ہم تھک جاتے ہیں
مصباح پوہدری
Comments
Post a Comment