حضرتِ انسان

گداگر سے لیکر بادشاہ تک, خرابات سے لیکر خانقاہ تک, دنیا کے ہر سر اور ہر در پر موت کا خونی گدھ منڈلا رہا ہے. ہر طرف نفسا نفسی ہے خود کو بچانے کی تگ و دو میں ہر ذی روح ایک محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہے. ہر شہر ہر گلی میں ہُو کا عالم ہے. ہر کوئی خود کو چھپانا چاہتا ہے کہ باہر موت کی دیوی کا پہرہ ہے.ایسا لگتا ہے کہ آجکل اس دیوی کا شکار صرف اشرف المخلوقات ہی ہے. ہر سو بے چینی و  بے سکونی ہے. انسان جو نفس مطمعنہ کا طلبگار ہے تسکینِ خاطر پہ اپنی جان تک دے دیتا ہے. اسکے لیے یہ سب لاحاصل ہے. وہ سکون کی اس دولت سے محروم ہوتا جا رہا ہے. حضرت انسان اتنا بے بس و مجبور ہے کہ اس کے پاس دعوی کرنے کو کچھ بھی نہیں. نہ اسکے جسم پہ اسکی مرضی نہ اسکی جان پہ اسکی مرضی. ایسی زندگی کس کام کی ہے کہ جسکے ایک سیکنڈ کے کڑوڑویں حصے میں بھی اطمینان نہیں. ہر وقت موت کا خوف ایک ایک سانس اذیت سے بھر دیتا ہے. ایک ایک دھڑکن موت کا نگارہ بجاتی محسوس ہوتی ہے. کیا اب بھی ہمیں سمجھ نہیں ہے کہ سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے. زندگی جسکو ہم اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں یہ اللہ کی دین ہے اسکے حکم سے کسی وقت بھی واپس لی جا سکتی ہے. کیا اب بھی ہم غور نہیں کرتے کہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے مٹی کہ جس سے جسم تخلیق ہوا روح کہ جو حکم ربی ہے. جسم کی عمارت سے روح کا نور نکال دیا جائے تو خالی جسم کسی کام کا نہیں رہتا. خالی جسم ناکارہ ہوتا اسکی اوقات آجکل صرف اتنی سی ہے کہ لوگ ہاتھ نہیں لگاتے کوڑے کی گاڑیوں میں ڈال کر کسی گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے. اب بھی وقت ہے. جسکی طرف لوٹنا طے ہے اپنے اعمال اسکی طرف موڑ دیے جائیں. یاد رکھیں جو خود نہ جھکے اسکو جھکا دیا جاتا ہے. اور جب جھکانے والا جھکاتا ہے تو توڑ کے جھکاتا ہے اور نازک انسان توٹنے کا درد نہیں سہہ سکتا.
✍🏻مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار