موٹروے پہ ایسا اندوناک واقعہ یقیناً قابل مزمت ہے اتنا تکلیف دہ ہے کہ موت بھی اس سے بہتر لگے.ابھی تو محرکات کی جان پہچان ہی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پہ ایک طوفان امنڈ آیا. ہر کوئی اپنا اپنا پنڈورا باکس کھول کے بیٹھ گیا. حیرت ہوئی کہ پچھلے کچھ عرصے سے خاموش میرا جسم میری مرضی والوں کو ایک بار پھر زبان لگ گئی اور عورت ذات کو ایسا مظلوم بنا کے پیش کیا گیا جانے لگا کہ یہ زمین اسکے لیے تنگ ہو گئی ہے اب اسکو اپنے حق کے لیے باہر نکلنا چاہیے مردوں کے خلاف جا کر انکو ناکوں چنے چبوانے چاہیں. دوسری طرف سیاستدانوں اپنی سیاست چمکانے کے لیے میدان میں اتر آئے.کسی کو نہ عورت سے غرض تھی نہ اس بچی سے اور نہ ہی قتل ہونے والے ہیجڑے سے. سب کو ثابت صرف یہ کرنا تھا کہ وہ ٹھیک ہے اسکو تکلیف زیادہ ہوئی ہے. تکلیف حد سے بڑھ گئی جب فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا چینلز پہ ریاست پاکستان کی خوب مٹی پلید کی گئی. ٹی وی چینلز پہ ایسا شور برپا ہوا کئی بیبیاں روئی پیٹی کہ ہم جہنم میں ہیں. ایسا جہنم ایسا قید خانہ جہاں انکی عزت کسی وقت بھی تار تار ہو سکتی ہے. ایسا ملک جہاں کوئی محفوظ نہیں ایسا ملک جہاں غنڈے سر عام پھر ...
I am a D-girl کچھ دن پہلے یوٹیوب پہ Chika Okoro کا ایک کلپ میری نظر سے گزرا. ایک افریکن امریکن لڑکی ایک خوبصورت انداز بیان. لفظوں کا سحر ایسا کہ اب تک کئی بار اسکی ویڈیو دیکھ چکی ہوں سن چکی ہوں مگر ہر بار دل کے پہلے سے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے. کئی بار سوچا کہ میں کونسی قسم کی لڑکی ہوں؟ آپ بھی سوچیں اور بتائیں کہ آپ کس کیٹیگری میں آتی ہیں؟ پہلی قسم ایسی لڑکیوں کی ہے جن کے رنگ گورے, غزالی آنکھیں, ستواں ناک. سیدھے لمبے گھنے بال (hottest of the hottest) جبکہ دوسری کیٹیگری میں B-girls یعنی ایسی لڑکیاں ہیں جنکی رنگت گوری, موٹی آنکھیں ناک باریک, دراز قد اورجسم سیکسی ہو. کیا آپ بھی اس کیٹیگری میں فال کرتی ہیں؟ پھر آتی ہیں c-girls . جو بال لمبے کرنے کو ایکسٹینشن استعمال کرتی ہیں. رنگت بھوری سے سفید کے درمیان. نین نقش بس واجبی سے. مگر کریموں کے استعمال سے گوری ہو سکتی ہیں اور کنٹورنگ کے عمل سے ناک منہ کی موٹائی میں فرق ڈالنے کے ہنر سے آشنا. کیا آپ بھی سی گرل ہیں؟ اور آخر پہ باری آتی ہے d-girls کی. موٹی ناک, کالا رنگ, فربہ جسم, گھاس جیسے بال اور قدو قامت میں بھی سطحی. یہ کچھ درجات ہیں جنکو...
"بچوں کی کردار سازی میں والدین کا کردار" بچے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ شادی شدہ زندگی کے سارے رنگ انہی کے دم قدم سے ہیں۔ لیکن جہاں قدرت نے ماں باپ کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کے لیے بچے عطا کیے ہیں وہیں بچوں کی زندگی کو خوبصورت اور مکمل کرنے کے لیے ماں باپ جیسی ہستیوں سے نوازا ہے۔ کبھی غور کریں تو پتہ چلتا کہ انسان کہ علاوہ تمام جانداروں کی اولادیں پیدائش کے فوری بعد اٹھنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں۔ لیکن نسل آدم کی بقا کا انحصار اسکے والدین پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں والدین کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا۔ اسلام میں بھی اولاد کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں نہ۔ بچے کی زندگی کے تمام معاملات کا دارومدار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے اور تربیت میں سب سے اہم والدین کے عمل انکا ایک دوسرے اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ رویہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسان ہے کہ وہ اعمال کو دیکھ کے زیادہ راغب ہوتا ہے۔ تبھی اولین درسگاہ ماں کی گود کو کہا گیاہے۔ اسی درسگاہ میں بچہ سیکھتا ہے کہ اسنے دوسروں کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھناہے۔ زندگی میں آنیوالی مشکلات کا سا...
Comments
Post a Comment