سکھر کے لوگ
انسان کا اس زمین سے بہت گہرا رشتہ ہوتا جس میں وہ رہتا۔ میں نے سنا تھا پہاڑوں میں بسنے والوں کے دل بھی پتھر جیسے ہوتے بظاہر بہت مضبوط لیکن سنگ تراش کی محنت اور لگن انہیں فن پاروں میں بدل دیتی۔ یہاں سکھر آ کے مجھے ان لوگوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہوا ۔ یہاں کا خوبصورت دریاے سندھ اور اس سے نکلتی نہریں میرے ذہن میں لوگوں کی جو تصویر بنا رہیں تھیں وہ بہت خوبصورت تھی قدرت نے روشنی کے ساتوں رنگ سمیٹ کر جاقوس قزح میرے اندر بکھیری تھی وہ یہاں کے لوگوں سے ملنے ان سے بات کرنے اور بغور دیکھنے کے بعد تتلی کے کچے رنگوں کے جیسے اڑ گئ۔ وہ بے مقصد بے سروپا الفاظ ضائع نہیں کرتے۔ لیکن جب بولتے تو تلخی جھلکتی۔ ایک بیچارگی عیاں ہوتی۔ جیسے کسی مایوس انسان کی ساری امیدیں دم توڑ جائیں اور تقدیر و تدبیر کے سارے دروازوں کو بند کا کر وہ خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے۔ لیکن ویرانی اس کے اندر گھر کر لے۔ جیسے کسی امر بیل نے اس کے حالات و خیالات کو جکڑ لیا ہو۔ یہ لوگ ماڈرن زندگی کے تمام رنگوں کو اپنا رہے ہیں۔ لیکن میوزیم میں رکھے کسی مجسمے کی طرح جسکی تزئین و آرائش پہ جتنا بھی خرچ کر لیں ۔ اس پر جمے قدیمیت کے اثرات کبھی ماند نہیں پڑھتے۔یہ لوگ دریاے سندھ کے لہروں بھرے پانی میں پتھر کی طرح جمے ہوئے ہیں یہ لوگ باہر سے بھلے ہی کھلے ڈھلے لگیں لیکن اندر سے کسی ویران آسیب زدہ حویلی کی طرح بند ہیں ۔ یہ ویرانی ان کہ لہجوں اور خوبصورت لباسوں میں ملبوس ان کے میک اپ زدہ چہروں سے بھی عیاں ہے۔ اہسا لگتا دریاے سندھ کا زمینوں کو سیراب کرتا پانی انکے بنجر دلوں پہ خوشیوں کے پھول اگانےسے قاصر ہے۔۔۔۔ مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment