عورت کا روپ....طوائف قابل عزت قابل ستائش
ہاں میں طوائف ہوں!
بظاہر میرے خدوخال عورت سے ملتے ہیں مگر میں اسکے جیسی نہیں ہوں. میرے اور اسکے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے وہ صدیوں سے مجھے اپنا دشمن مانتی ہے اسکو لگتا ہے میں اس سے اسکا شوہر بیٹا باپ چھین لیتی ہوں اسکے سر کا تاج میرے تلوے چاٹتا ہے اسکے حصے کا رزق کاٹ کر میرے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے میرے ناز نخرے اٹھاتا ہے مجھے عیاشی کرواتا ہے. مگر وہ پاگل کب سمجھتی ہے کہ میں ہی تو ہوں جو اسکی عزت اور اسکا گھر محفوظ بناتی ہے اسکے شہر سے اگر میرا وجود نکال دیا جائے تو وہ جوبڑے اطمینان سے بڑے غرور کے ساتھ بازاروں میں دندناتی پھرتی ہے اسکا چلنا محال ہو جائے وہ عزت داری اور پارسائی جسکا اسکو مان ہے ایک لمحے میں خاک نشیں ہو جائے. وہ میری تربیت اور تہذیب پہ ہمیشہ انگلی اٹھاتی ہے کیونکہ شاید وہ تاریخ کے اس باب سے نابلد ہے جب شریف زادے ادب و آداب سیکھنے کے اپنے شہزادوں کو میرے کوٹھوں پہ بھیجا کرتے تھے. مگر میں اسکو جتلانا نہیں چاہتی. میں چاہتی ہوں اسکا بھرم قائم رہے. وہ مجھ سے نفرت کرے شدید نفرت. کیونکہ مجھ سے نفرت ہی اسکے رشتوں کو بچاتی ہےوہ میری نفرت میں اپنے مرد کی بیوفائی و بے حیائی دیکھ نہیں پاتی.
میں بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اسکی نظر میرے مہنگے لباس گھنگھرو اور پیسوں پہ تھرکتے میرے پیروں سے آگے میری ذات کو نہیں دیکھ پاتی. وہ سمجھ ہی نہیں پاتی کہ جسم کی اس تجارت میں میری روح تک گھائل رہتی ہے. میرے بستر کی سلوٹیں دیکھنے والی میرا ٹکڑے ٹکڑے جسم نہیں دیکھتی وہ کبھی نہیں سمجھ سکتی کہ اپنے جسم کی بوٹی بوٹی نوچتے دیکھنا کس قدر اذیت ناک ہے. ایک کتے کے کاٹنے پر پہروں رونے والی کہاں جانے گی کہ بھیڑیوں کے جتھے جب حملہ آور ہوں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے. وہ کیسے جانے گی کہ میرے گھر کی کھونٹی پہ لٹکے کسی بٹ چوہدری جٹ گجر سید ڈوگر یا خان کے کپڑے میرے کوٹھے کی وقتی شان تو ہو سکتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی میری پہچان نہیں بنتا. میں انکے لیے فقط دل بہلانے کا سامان ہوں جس سے وہ عارضی تسکین حاصل کرتے مگر کوئی اپنی عزت کی چادر سے میرے لمحہ لمحہ رستے زخموں کو نہیں ڈھانپتا ان پر اپنے نام کی پٹی باندھنا کسی کو گوارہ نہیں. معصوم عورت کہاں جانتی ہے کہ میں ان عزت کے ٹھیکیداروں کی ہوس کو اپنے لہو سے سینچتی ہوں مگر وہ کم ظرف ان گناہوں کی پوٹلیوں کو نام دینا تو درکنار انکو پہچاننے تک کی زحمت نہیں کرتے.
یہ بیوقوف عورت اولاد ابلیس کے اس روپ سے کہاں واقف ہے جو اسکو بیاہ کر لاتا اپنی نسلوں کا امین بنا کر مگر خود اسکی امانت میں خیانت کرتا ہے اور میرے در پر اپنا پیسہ اور بیج دونوں چھوڑ جاتا ہے. عام عورت کبھی میری تہی دامنی بھی دیکھے کہ انسانوں کے اس جنگل میں میں کتنی اکیلی ہوں اس کی ساری خوبیاں ہونے کے باوجود میری اتنی تحقیر کہ یہ معاشرہ شریف زادی کے سلام کو اسکی حیا اور تربیت کی اعلی مثال کہتا ہے اور میرے سلام کو مجرا اسکی رہائش کو گھر اور میری رہائش کو کوٹھا. میری بس اتنی سی حسرت ہے کہ عزت داروں کی اس بستی میں مجھے عورت نہیں تو کم از کم انسان ہونے کا حق تو دیا جائے طوائف ہی سہی ہوں تو انسان ہی ناں....
مصباح بشیر چوہدری
بظاہر میرے خدوخال عورت سے ملتے ہیں مگر میں اسکے جیسی نہیں ہوں. میرے اور اسکے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے وہ صدیوں سے مجھے اپنا دشمن مانتی ہے اسکو لگتا ہے میں اس سے اسکا شوہر بیٹا باپ چھین لیتی ہوں اسکے سر کا تاج میرے تلوے چاٹتا ہے اسکے حصے کا رزق کاٹ کر میرے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے میرے ناز نخرے اٹھاتا ہے مجھے عیاشی کرواتا ہے. مگر وہ پاگل کب سمجھتی ہے کہ میں ہی تو ہوں جو اسکی عزت اور اسکا گھر محفوظ بناتی ہے اسکے شہر سے اگر میرا وجود نکال دیا جائے تو وہ جوبڑے اطمینان سے بڑے غرور کے ساتھ بازاروں میں دندناتی پھرتی ہے اسکا چلنا محال ہو جائے وہ عزت داری اور پارسائی جسکا اسکو مان ہے ایک لمحے میں خاک نشیں ہو جائے. وہ میری تربیت اور تہذیب پہ ہمیشہ انگلی اٹھاتی ہے کیونکہ شاید وہ تاریخ کے اس باب سے نابلد ہے جب شریف زادے ادب و آداب سیکھنے کے اپنے شہزادوں کو میرے کوٹھوں پہ بھیجا کرتے تھے. مگر میں اسکو جتلانا نہیں چاہتی. میں چاہتی ہوں اسکا بھرم قائم رہے. وہ مجھ سے نفرت کرے شدید نفرت. کیونکہ مجھ سے نفرت ہی اسکے رشتوں کو بچاتی ہےوہ میری نفرت میں اپنے مرد کی بیوفائی و بے حیائی دیکھ نہیں پاتی.
میں بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اسکی نظر میرے مہنگے لباس گھنگھرو اور پیسوں پہ تھرکتے میرے پیروں سے آگے میری ذات کو نہیں دیکھ پاتی. وہ سمجھ ہی نہیں پاتی کہ جسم کی اس تجارت میں میری روح تک گھائل رہتی ہے. میرے بستر کی سلوٹیں دیکھنے والی میرا ٹکڑے ٹکڑے جسم نہیں دیکھتی وہ کبھی نہیں سمجھ سکتی کہ اپنے جسم کی بوٹی بوٹی نوچتے دیکھنا کس قدر اذیت ناک ہے. ایک کتے کے کاٹنے پر پہروں رونے والی کہاں جانے گی کہ بھیڑیوں کے جتھے جب حملہ آور ہوں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے. وہ کیسے جانے گی کہ میرے گھر کی کھونٹی پہ لٹکے کسی بٹ چوہدری جٹ گجر سید ڈوگر یا خان کے کپڑے میرے کوٹھے کی وقتی شان تو ہو سکتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی میری پہچان نہیں بنتا. میں انکے لیے فقط دل بہلانے کا سامان ہوں جس سے وہ عارضی تسکین حاصل کرتے مگر کوئی اپنی عزت کی چادر سے میرے لمحہ لمحہ رستے زخموں کو نہیں ڈھانپتا ان پر اپنے نام کی پٹی باندھنا کسی کو گوارہ نہیں. معصوم عورت کہاں جانتی ہے کہ میں ان عزت کے ٹھیکیداروں کی ہوس کو اپنے لہو سے سینچتی ہوں مگر وہ کم ظرف ان گناہوں کی پوٹلیوں کو نام دینا تو درکنار انکو پہچاننے تک کی زحمت نہیں کرتے.
یہ بیوقوف عورت اولاد ابلیس کے اس روپ سے کہاں واقف ہے جو اسکو بیاہ کر لاتا اپنی نسلوں کا امین بنا کر مگر خود اسکی امانت میں خیانت کرتا ہے اور میرے در پر اپنا پیسہ اور بیج دونوں چھوڑ جاتا ہے. عام عورت کبھی میری تہی دامنی بھی دیکھے کہ انسانوں کے اس جنگل میں میں کتنی اکیلی ہوں اس کی ساری خوبیاں ہونے کے باوجود میری اتنی تحقیر کہ یہ معاشرہ شریف زادی کے سلام کو اسکی حیا اور تربیت کی اعلی مثال کہتا ہے اور میرے سلام کو مجرا اسکی رہائش کو گھر اور میری رہائش کو کوٹھا. میری بس اتنی سی حسرت ہے کہ عزت داروں کی اس بستی میں مجھے عورت نہیں تو کم از کم انسان ہونے کا حق تو دیا جائے طوائف ہی سہی ہوں تو انسان ہی ناں....
مصباح بشیر چوہدری
Comments
Post a Comment