سوچو کتنے عذاب ہوتے

ہماری آنکھوں میں تمھاری طرح گر
محبتوں کے خواب ہوتے۔
تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔۔
جو ہم پہ گزری ہے بندہ پرور۔۔
تم کیوں سمجھو گے اے ستمگر۔
تمھاری محبت کے آسماں پر۔۔
رقیبوں کے جو مہتاب ہوتے۔۔
تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔
وہ ہم تھے کہ سمجھا ہر دکھ تمھارا۔۔
کندھے پہ جب کسی اور کو پکارا۔۔
ہمارے بالوں میں کسی اور گلشن کے۔
میری جان اگر کچھ گلاب ہوتے۔
تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔
وہ تمھارا راتوں میں اٹھ اٹھ کے رونا۔
تکیے کو کسی اور کے ہجر میں بھگونا۔
ہماری نیندوں میں جو میری جاناں۔
کسی اور کے خواب ہوتے۔
تو سوچو کتنے عذاب ہوتے۔۔
(مصباح چوہدری)

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار