ڈر اور انسان
ڈر کہنے کو ایک لفظ ہے مگر حقیقت میں پوری زندگی.یہ دو طرح کا ہوتا مثبت ڈر اور منفی ڈر.. مثبت ڈر تعلق اور رشتوں کو مضبوط کرتا جبکہ منفی ڈر ہر رشتہ ہر تعلق کھا جاتا... ہماری زندگیوں میں منفی ڈر کا اثر نمایاں ہے انسانی زہن اور دل میں اسکا بیج اس کے اس دنیا میں آنے سے پہلے بو دیا جاتا ہے. ماں کی کوکھ میں ڈر کی دہشت کئی بار ماں کے دل دھڑکن بڑھاتی ہے اور کئی بار بچے کے دل کی دھڑکن روک دیتی ہے. کبھی کوکھ میں پلنے والے کی صحت کا ڈر.. کبھی اسکی مطلوبہ صنف کا ڈر. کبھی اسکے نصیب کا ڈر اور کبھی اسکے کھانے پینے کا ڈر یہ سب ڈر پیدائش سے پہلے بچے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں... اور جیسے ہی وہ دنیا میں آتا ہے تو مزید ڈر کسی اژدھے کی مانند منہ کھولے بیٹھے ہوتے۔. ننھی سی جان دل میں دنیا کی خوبصورتی کی تمنا لیے ڈر کے پہلو میں ساری زندگی گزار دیتی ہے..ڈر کہ سیاہی زندگی کی کتاب کے ہر صفحے کو سیاہ کر دیتی ہے رشتے خوشیاں دکھ سکھ سبکا دم گھٹنے لگتا ہے مگر انسان کبھی کسی موڑ پہ اس چادر کی بکل سے باہر نہیں آ پاتا.... سب سے پہلا ڈر اس مالک کا پیدا کیا جاتا جس نے بہت محبت سے خلیفہ بنایا جھوٹ مت بولو اللہ منہ میں آگ ڈال دے گا چوری مت کرنا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ماں باپ کہ نافرمانی کرتے ہو جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے نماز نہیں پڑھی قبر میں سانپ آیئنگے ایسا لباس توبہ اب تمھارا بدن بچھو کھائینگے وغیرہ وغیرہ... ڈرانے والے نہیں جانتے کے انکی یہ باتیں انسان کا اللہ کے ساتھ رشتہ کتنا کمزور کر رہی ہیں وہی اللہ جو کہتا میں شاہ رگ سے زیادہ قریب ہوں ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں جس سے رشتہ یوں ہونا چاہیے کہ جہاں سے گزریں بس وہی وہ دکھائی دے جب جی بھر آئے تو اسی کی بارگاہ میں بیٹھ کے سارے آنسو اس یقین کے ساتھ بہایئں کے وہ ہمارے ساتھ ہے ہمارے دکھ کا مداوا کرنے کے لیے ہمیں سہارا دینے کے لیے.. جو سب سے اچھا دوست ہونا چاہیے جسکا قرب اندھیرے میں بھی ڈرنے نہ دے..جو تنہائی میں ہر شے سے عیاں ہو جو ہجوم میں ہر ایک سے جھانکے جو سانس سے زیادہ ضروری لگے اور دھڑکن سے زیادہ خود میں دھڑکتا محسوس ہو. چس سے لاڈ ہو سکیں.. جسکی یاری پہ ناز کیا جا سکے.. جس سے اپنی غلطیاں اس امید پہ نہ چھپانا چاہیں کہ وہ راستہ دکھائے گا. افسوس کے یہ رشتہ محض جہنم اور جنت کے حصول تک رہ جاتا.. بتانے والے بتا نہیں پاتے کہ اسکی صفت رحمان اور رحیم ستار جبار اور قہار سے پہلے آتی ہے ڈرانے والوں کو کیا خبر کہ اس نے یہ فرمایا کہ علم والے اللہ سے ڈرتے ہیں جب تک ہمیں شعور نہیں ہو گا تو ہم کیسے ڈر سکتے ہیں اسکی وجہ سے اس سے؟؟؟ آگاہی کے دریچوں میں علم کے چراغ ہی اپنے نور اجالا کرتے ہیں تبھی اللہ دکھائی دیتا سامنے بیٹھا ہر شے سے جھانکتا تبھی ڈر آتا ہے اسکو کھونے کا ڈر اسکی ناراضگی کا ڈر اسکے منہ موڑنے کا ڈر اور آخر میں جا کے کہیں جہنم کا ڈر مگر ڈرانے والے کیا جانیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک سے محبت کرتے تھے اور امت سے بھی محبت تھی اسی محبت کا ڈر سے وہ روتے تھے ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے اور آج مجھے لگتا ہے کہ وہ امت کے اسی ڈر سے ڈرتے ہونگے جس نے ہمیں ہر چیز سے دور کر دیا.. وہی ڈر جو انسان کو اللہ سے شکوے نہیں کرنے دیتا اسکی ناراضگی نہیں اسکے جہنم کا ڈر. ماں باپ سے بات نہیں کرنے دیتا کہ کہیں انکی خفگی اور انکے قہر کا شکار نہ ہو جاوں..مولوی کا ڈر کے فتوے صادر نہ کر دے. دوستوں کا ڈر کہ وہ چھوڑ نہ جائیں. استاد کا ڈر کے فیل نہ کر دے عدالت کا ڈر کے نہ اہل نہ کر دے سچی بات کا ڈر کہ جھوٹ کی محفل نہ اجڑ جائے عزت و وقار کا ڈر جو کئی گناہ کرواتا رشتے داروں کا ڈر کہ وہ کیا سوچیں گے.. اور لوگوں کا ڈر لوگ کیا کہیں گے .. سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد بھی ڈر سے رشتہ ختم نہیں ہوتا. قبر اور حشر کا ڈر.. اتنی ہماری سانسیں نہیں جتنے ہمارے ڈر ہیں.. یہ ڈر وہ ڈر اور ڈر ہی ڈر....
کاش کوئی اس ڈر کی چادر کو کھینچ پھینکے اور ہمیں ہمارے اصل سے ملوا دے. ہمیں بتائے کہ ہمارا خمیر محبت سے اٹھایا گیا ہے ڈر سے نہیں
مصباح چوہدری
کاش کوئی اس ڈر کی چادر کو کھینچ پھینکے اور ہمیں ہمارے اصل سے ملوا دے. ہمیں بتائے کہ ہمارا خمیر محبت سے اٹھایا گیا ہے ڈر سے نہیں
مصباح چوہدری
Comments
Post a Comment