چائلڈ لیبر
چائلڈ لیبر
کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں سنہرے مستقبل کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انکا آج سنوارہ جائے.مگر عصرِ حاضر کے شمارے دیکھ کر دل ہولنے لگتا ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں جہاں ہر کوئی ٹیکنالوجی کی نئی جہت روشناس کروانے کی کوشش میں ہے وہیں یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے سکول تک رسائی نہیں رکھتے جو کہ بچوں کی کل تعداد %44 ہیں اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ کہ ان میں سے 12.8 ملین بچے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مزدوروں کی صف میں کھڑے ہیں. انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق 2.7 ملین بچے ایسے ہیں جو کہ کھیتوں میں کام کرتے ہیں جبکہ باقی کارخانہ جات, ورکشاپ, ہوٹل, سینما گھروں, دکانوں, مویشی پالنے, مچھلیاں پکڑنے, بھٹہ مزدوری, کشیدہ کاری, تعمیرات, پیکنگ, کان کنی اور فٹبال سلائی وغیرہ جیسے کاموں سے منسلک ہیں.
بچوں کی مزدوری کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں مگر ان عمل درآمد مختلف وجوہات کی بنا پر ناگزیر ہو جاتا ہے. آرٹیکل 25 اے ریاست پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کو یقینی بنائے اسکے علاوہ پنجاب امتناع چائلڈ لیبر بھٹہ خشت آرڈینینس 2016 بچوں کو بھٹوں پر مزدوری کروانے والوں کیخلاف ریاست کو کاروائی کا حق دیتا ہے. 2016 میں پنجاب حکومت نے نہ صرف بچوں سے مزدوری کروانے کو جرم قرار دیا بلکہ 14 سال سے کم عمر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے مفت کتابوں یونیفارم اور ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفے کا بھی اعلان کیا. اسی پالیسی کے تحت مختلف اضلاع میں کئی سکول کھولے گئے جن میں سے کچھ والدین کی عدم توجہی اور بچوں کی غیر حاضری کی وجہ سے بند کرنا پڑے.
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے حکومت اور دیگر اداروں کی کاوشوں کے باوجود چائلڈ لیبر میں کمی واقع نہیں ہو رہی؟
اسکی پہلی اور سب سے اہم وجہ غربت ہے پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں %24.8 آبادی غربت کی لائن سے نیچے گزر بسر کر رہی ہے وہاں تعلیم کی نسبت روزگار کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے. جبکہ دوسری بنیادی وجہ پڑھے لکھوں لوگوں میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ہے ایچ ای سی آن لائن پورٹل کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق 11000 سے زائد پی ایچ ڈی ڈاکٹرز بیروزگار ہیں جبکہ ملک میں صرف %6 لوف یونیورسٹیز سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اور پی ایچ ڈیز %1 فیصد سے بھی کم ہیں. یہ خوفناک حقائق نہ صرف والدین بلکہ بچوں کے تعلیم کی طرف رحجان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.
تیسری اہم وجہ معیار عزت ہے لوگوں نے علم کی بجائے دولت کو عزت کا پیمانہ بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ طلباء پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک پچاس لاکھ خرچ کرنے کی بجائے ان پڑھ رہ کر پیسہ بچانے اور چند لاکھ لگا کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں. انکو لگتا ہے کہ تعلیم محض وقت اور پیسوں کا ضیاں ہے.
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ بچے ہمارے سنہرے خوابوں کی تکمیل کا واحد ذریعہ ہیں اور ان سے جڑے خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہونگے جب ان پھولوں کے ہاتھوں میں اوزار کے نام پر قلم اور کتابیں ہونگی ریاست کو چاہیے کہ میٹرک تک تعلیم مفت اور لازم قرار دی جائے. ملازمت اور کاروبار کا حصول یقینی بنا کر عام لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جائے تبھی ہر خاص و عام بچوں کی تعلیم پہ دل کھول کر خرچ کر پائے گا پیٹ کی بھوک سے نکل کر ہی انسان کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کا سوچتا ہے....
Comments
Post a Comment