ماضی کے جھروکے

ماضی کے جھروکوں میں تانک جھانک۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب صبح تہجد میں ہوا کرتی تھی بڑی بیٹیاں اور مایئں نماز تہجد کو فرض سمجھتی تھیں تہجد کی ادایئگی کے بعد ماں قرآن کی تلاوت شروع کر دیتی جبکہ بیٹیاں مٹکوں سے دہی نکال کے چاٹیوں میں ڈالتی اور بچوں کا حصہ چھنوں کٹوروں میں بھر کے ٹوکروں تلے رکھا جاتا تھا اور کماوں پوتوں کو تبھی اٹھا دیا جاتا اور رات والی روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کر شکر کے ہمراہ دہی میں شامل کر کے دیا جاتا کہ وہ کھا کہ نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنے کاموں پہ جا سکے اور باق لوگ مدھانی کی آوازوں سے اٹھتے یہ جھرنے جیسی آواز کانوں میں رس گھولتی کہ صبح افسانوی سی ہو جاتی۔ تب ناشتے میں توی پہ بنی پھولی روٹیاں جنکو سینکنے پہ سینکا جاتا وہ بھی آرٹ تھا کہ آگ پہ سنکی روٹی کالی نہ ہونے پائے۔ اورپھر اسکو مکھن سے چوپڑا جاتا اور بچوں کو دہی میں مکھن ڈال کے دیا جاتا کہ انکی افزائش بہتر ہو تب جیم بریڈ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کسی کو کیلیریز کی فکر ہوتی لسی سپیشل چیز ہوتی۔ کولے میں لسی اور اس میں رکھی نمک کی ڈلی کہ اپنی مرضی سے نمکین کر لیں۔ تب لسی پینے سے جوڑوں میں درد نہیں ہوتا تھا۔
ان دنوں طالبعلموں کی سب سے بڑی عیاشی پانچ سے سات روپے والا سموسہ ہوتا تھا۔ پیزا برگر سینڈوچ کے ناموں سے لوگ آشنا نہیں تھے۔ لوگوں کے ناموں سے پہلے انکی ذات بلائی جاتی۔ اناج کے ڈھیر پہ بیٹھے میراثیوں سے جگتیں سنی جاتیں اور دعائیں لی جاتیں اور اناج انکو ایسے دیا جاتا جیسے کسی حصے دار کو دیا جاتا۔ پھر کمہار نائی تیلی سب کو انکا حصہ گھر میں اناج لانے سے پہلے دیا جاتا۔ بیر گرمیوں کی سوغات ہوتی۔ چرخے کاتتی اور جھولے جھولتی لڑکیاں اپنی جھولیاں بیروں سے بھرے کھاتے پھرتی۔ تب نیاز کی چیزیں بیٹیوں کے ہاتھ بھیجی جاتی تھیں کوئی ڈر نہیں تھا ایک لڑکی پورے گاوں کی بہن ہوتی بیٹی ہوتی اسکی شادی جہاں بھی ہوتی اسکی اولاد کے مامے ماسیاں سارے پنڈ کے لوگ ہوتے ۔ شادیوں اور موت کے بلاوے نایوں کے ہاتھوں بھیجے جاتے۔ اور انکو کمی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ انکی عزت گھر کے فرد جتنی ہوتی تھی۔
ہوٹلوں کا رواج نہیں تھا لڑکیاں ڈوپٹوں کی بکلوں میں لپٹی ہوتیں۔ تب pubg جیسی کیمز نہیں تھیں کوکلا چھپاکی۔ برف پانی۔ پٹھو گرم اونچ نیچ وغیرہ جیسے بچوں کو ایکٹو رکھتے تھے۔ تب فاسٹ اینڈ فیوریس جیسی موویز نہیں تھیں لیکن ہفتے میں ایک فلم آتی تھی خبرنامے کے بعد جہاں عشرت فاطمہ جیسی نیوز اینکر ہوتی۔ اس فلم کا پورا ہفتہ انتظار کیا جاتا اور عین فلم کے وقت نیند غالب آ جاتی۔ کیونکہ تب 9.40 آدھی رات میں ہوتے تھے۔
کیا وقت تھا موبائل نہیں تھے دروازے کے آدھے پاٹ کھولے لورزایک   دوسرے کو تکا کرتے تھے۔ خط و کتابت کے لیے گھر کے چھوٹے بچے اور ہمسایوں کے بچے استعمال ہوتے۔ سب سے بڑی ڈیٹ ایک دوسرے کے گھر نذر و نیاز کے بہانے منائی جاتی۔ باہر ہوٹلوں میں عورت کا جانا معیوب مانا جاتا تھا۔ ہر گلی میں کوئی ایک ایسا ہوتا کہ جس سے سب ڈرتے تھے گلی میں لڑتی عورتیں اسکی آواز سن سب گھروں میں چلی جاتیں تھیں۔ بچے کسی کا بھی ہو غلطی کرے ماں باپ کا انتظار نہیں کیا جاتا تھا۔ جو بھی دیکھتااسکو سمجھا دیتا یہاں تک کہ تھپڑ بھی لگا دیتا پورے حق سے اور گھر جا کہ شکایت لگانے کا رواج نہیں تھا اگر کوئی بچہ شکایت لگا دیتا تو اسکی اپنی شامت آ جاتی۔ چوروں کے بھی معیار ہوتے۔ کسی کے گھر کا نمک کھا لیتے تو وہاں چوری نہیں کی جاتی تھی۔ پھر عورتوں کی حرمت کا خیال رکھا جاتا کہ چوری صرف مال کی ہو عزت کی نہیں۔
کیا خوبصورت زمانہ تھا۔ لیکن یہ روایات 1970 کی دھائی کے بعد دم توڑ گئی ہمارے بچپن میں ہاتھ والی مدھانی کی جگہ بجلی کی مدھانی لے لی۔ استاد کی سزا جو یک ٹانگ پہ کھڑا ہونا کرسی بننا مرغا بننا دم توڑنے لگیں۔ اسکی جگہ مار نہیں پیار کے بھونڈے نعرے نے لے لی لڑکیاں ہوٹلوں میں جانے لگی میک اپ عام ہو گی جو کبھی شادی شدہ کی پہچان تھا اب کنوارین بھی کرنے لگیں۔ لسی جوڑ دکھانے لگی۔ دودھ فل کریم ملک سکم ملک میں تقسیم ہو گیا۔ ہاں یار سہی دودھ جس کو بیچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا کہ دودھ بیچا پوت بیچا ایک برابر تھا۔۔۔ اب دودھ جیسا ہے وہ سب جانتے۔۔۔
آج کی نسل ان چیزوں سے نا آشنا ہے۔ انکو محض یہ سب مزاق لگے لیکن ہم جیسے جنہوں نے ان میں کچھ چیزیں دیکھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ پچھلی صدی میں ہم کیا کیا دفن کر کے آئے ہیں۔ نئی صدی ہمیں ادھورا کر گئی ہے۔
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار