لمحہ فکریہ

لمحہ فکریہ
 چودہ سو سال پہلے موذن اسلام جب اذان کے لیے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتا توکائنات کی ہر چیز پر وجد طاری ہو جاتا۔ ہر شے بڑائی بیان کرتی اور اگر قدرت کا حکم رکنے کا نہ ہوتا تو ہر شے سجدے میں جھک کر اپنے خالق کے مالک ہونے کا اقرار کرتی۔۔ اور امام کے پیچھے فقط انسان ہی نماز ادا کرنے والے نہ ہوتے بلکہ چرند پرند درخت پہاڑ دریا سمندر غرض کائنات کا ذرہ ذرہ نماز کی ادایئگی میں ساتھ ہوتا۔۔ بدقسمتی کہیے یا ایمان کی کمزوری آج ہر محلے کیا ہر گلی میں مسجد ہے جہاں مولوی صاحب نہ صرف بڑائی بیان فرماتے ہیں بلکہ لمبے چوڑے خطبے سے اہل ایمان کے دلوں میں خوف خدا بیدار کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مگر خدا جانے کانوں پہ کونسے قفل پڑھے ہیں یا زبانیں لکنت سے ایسی خالی ہوئی ہیں کہ نماز جمعہ کے وقت بھی مساجد مومنوں کی جبین کو ترستی ہیں۔ ایمان کا ایسا قحط تو تب بھی نہ جب پیس ٹی وی مدنی چینل اور سوشل میڈیا پہ اسلام کی ایسی تبلیغ نہ تھی۔۔ آج تو ہر مرد مومن جمعہ کے دن خصوصی طور پر اپنے وٹس ایپ سٹیٹس ٹویٹر اکاونٹ فیس بک آئی ڈی یعنی ہر سوشل میڈیا چینل کو قرآنی آیات سے مزین کرتا۔ ٹی وی چینلز بھی جمعہ کی مناسبت سے خصوصی محافل کا اہتمام کرتے جہاں بہترین عالم دین اسلام کا پرچار کرتے نظر آتے۔۔ گلی گلی اسلام کا شور ہوتا۔۔ مگر کیا وجہ ہے آج دنیا میں مسلمان ہر جگہ بدنامی و ذلت کے کیچڑ میں ایسے لتھڑے دکھائی دیتے کہ شرم سے آنکھیں نہ اٹھائی جایئں۔  آخر کیا وجہ ہے؟؟ کہ امن کے پیامبر آج دہشت گرد سمجھے جاتے؟ کیوں جنگ کا خطرہ صرف مسلمانوں کے سر پر ہی منڈلا رہا؟؟ کیوں کشمیر اور فلسطین آج تک جل رہے؟ کیوں کبھی امریکہ کبھی روس کے ہاتھوں کھلونا بنتے؟؟؟ آخر آپریشن اسامہ بن لادن کے لیےہی کیوں؟؟؟ ملاعمر بشرلاسد آخر کب تک نشانے پہ رہیں گے؟؟؟ آخر کب تک ہم زبانی کلامی لوگوں کو بتائیں گے کہ اسلام ایسا ہے اسلام ویسا ہے؟؟؟ اور سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے لوگ آج ہر جگہ کیوں محکوم ہیں؟؟؟ یہ اور اس جیسے ہزاروں کڑوڑوں سوالات اربوں لوگوں کے زہنوں پہ دستک دیتے۔۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا کے عروج سے زوال کا سفر ہم نے کس شان سے طے کیا ہے۔۔ سراسر عمل والا دین آج محض زبانوں کلاموں اور سوشل میڈیا پہ زندہ ہے۔۔ خدارا اسلام کو شامل عمل کیجیے سٹیٹس والا اسلام زندگی نہیں بدلتا۔۔۔
عمل زیادہ اونچا بولتے ہیں الفاظ کی نسبت۔۔ اسلام ضابطہ حیات ہے اسے ضابط کتاب ظابط فرقہ اور ظابط پرسنل مفاد نہ کیجیے۔۔ ورنہ 57 مسلمان ممالک اسلام کے نام پہ دھبے کے سوا کچھ نہیں ہونگے۔ اسلام کو اپنائیے دنیا کی جرات نہیں کے آپ کو نہ اپنائے ہماری بقا دین کی پیروی میں ہے ۔۔۔
✍مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار