16 دسمبر
وہ صبح عام صبحوں کی نسبت بہت اداس خاموش اور بے چین سی تھی مگر کوئی بھی اس اداسی اور بے چینی کا سبب نہیں جانتا تھا سکول میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز عام انداز میں ہوا ہی تھا کہ خدا جانے دھند کے پردوں کو چیرتا ہوا کربلا کا سورج کہاں سے نمودار ہو گیا اور پوری آب و تاب سے اے پی ایس پشاور پر چمکنے لگا. یکایک کئی دہشت گرد سکول کی دیواروں اور گیٹ کو پھلانگتے ہوئے سکول کے احاطے میں داخل ہوئے اور آتے ہی گولیوں کی برسات شروع کردی, مشین گنوں کی آواز اور گولیوں کی بوچھاڑ سے کئی پھول سہم گئے اور کئی لرزتے تڑپتے زمین بوس ہو گئے ہر طرف کہرام مچ گیا اساتذہ اور بچے چیختےچلاتے پرنسپل آفس کی طرف دوڑے مگر کبھی آفس تک نہ پہنچ پائے اور آن کی آن کھلونوں سے کھیلنے والے موت کے ہولناک کھیل میں زندگی کی بازی ہار گئے وقت کے یزید کو ذرا ترس نہ آیا لیکن اسکو اندازہ ہو گیا کہ اسکی مشین گنیں ان علم کے متوالوں اور رکھوالوں کو زیر نہیں کر سکتیں تبھی ان نمرودوں نے پٹرول چھڑک کر پرنسپل, اساتذہ اور بچوں کو جلانا شروع کر دیا. انسانی نفرتوں کی یہ آگ کئی زندگیاں نگل گئی مگر درحقیقت یہ زندگیاں جلانے والوں کی تھیں جلنے والوں کے لیے تو یہ آگ گلزار ابراہیم ثابت ہوئی جو تحفے میں انہیں ہمیشہ کی زندگی دے گئی. ایک طرف دہکتی آگ اور دوسری طرف گولیوں کی یلغار, کمروں میں موجود اساتذہ بچوں کو اپنی آغوش مادر میں محفوظ کرنے کی تگ و دو کرنے لگے مگر کب تلک وہ نہتے خود کو بند دروازوں کے پیچھے چھپا سکتے تھے دشمن دروازے توڑ کر اندر آ گیا تھا مقابلہ بہت سخت تھا ایک طرف اندھی گولیاں اور دوسری طرف بلکتی انسانیت, ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ کسی کی زندگی بچا سکے تبھی تو دوسروں کی جانب بڑھتی گولیوں کو بھی اپنے سینے پہ جگہ دی جا رہی تھی تمغہ شہادت کے حصول کا جنون اپنی جگہ مگر کوئی بھی مرد مجاہد پیٹھ پہ گولی کھانے کو تیار نہ تھا جانتا تھا کہ وہ وارث حسین رضی اللہ عنہ ہے جہاں مجاہد چھ ماہ کا ہو یا ساٹھ سال کا سر کٹوانا پسند کرتا ہے مگر دشمن کے آگے سر جھکانا نہیں جانتا. دیکھتے ہی دیکھتے تقریبا ڈیڑھ سو عالم جام شہادت نوش فرما گئے جنگ اب بظاہر ختم ہو چکی تھی یزید اب شکنجے میں تھا ہر طرف انسانیت بے یارومددگار پڑی تھی زمین شہیدوں کے لہو سے تر, خوشیوں کے گیت گانے والے کئی نغمے اپنے دل میں لیے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکے تھے, بہت سی چیخیں حلق میں ہی دم توڑ گیئں تھیں. ہر طرف کربلا کا منظر تھا ماں باپ بہن بھائی سب پکار رہے تھے مگر کوئی انکی پکار پر لبیک کہنے کو تیار نہ تھا ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر گھر میں صف ماتم, بہت سہ صدایئں آسمان سے ٹکرا رہیں تھیں اور بہت سی چیخیں گونگی ہو گئی تھیں وہ یوم محشر نہیں تھا مگر محشر جیسا تھا انسانی تاریخ کا سیاہ ترین دن. . .
مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ "اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد".دیکھتے ہی دیکھتے شہیدوں کا لہو رنگ لانے لگا. وہ مٹی جو مظلوموں کے خون میں لپٹی تھی اس نے دہشت گردوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا. اور پاک فوج کے جوانوں نے چن چن کر ظالموں کو نشان عبرت بنایا اور دہشت گردی کا صفحہ ہستی سے خاتمہ کرنے کا عمل شروع ہو گیا. یہ ہم اور آپ جو اس امن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں اسکی آبیاری انہیں شہدا نے اپنے خون سے کی ہے. آج کے دن ہم بحیثیت قوم ان شہدا اور ان کے وارثوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنےتن من اور دھن سے انکا مشن آگے بڑھایئں گے جب تک کے امن کی فاختایئں اس مملکت خداداد کی ان حسین فضاوں میں کھل کر امن و محبت کے گیت نہ گانے لگ جایئں.. ہم اپنا کام جاری رکھیں گے...... انشاءاللہ
مصباح چوہدری🇵🇰
مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ "اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد".دیکھتے ہی دیکھتے شہیدوں کا لہو رنگ لانے لگا. وہ مٹی جو مظلوموں کے خون میں لپٹی تھی اس نے دہشت گردوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا. اور پاک فوج کے جوانوں نے چن چن کر ظالموں کو نشان عبرت بنایا اور دہشت گردی کا صفحہ ہستی سے خاتمہ کرنے کا عمل شروع ہو گیا. یہ ہم اور آپ جو اس امن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں اسکی آبیاری انہیں شہدا نے اپنے خون سے کی ہے. آج کے دن ہم بحیثیت قوم ان شہدا اور ان کے وارثوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنےتن من اور دھن سے انکا مشن آگے بڑھایئں گے جب تک کے امن کی فاختایئں اس مملکت خداداد کی ان حسین فضاوں میں کھل کر امن و محبت کے گیت نہ گانے لگ جایئں.. ہم اپنا کام جاری رکھیں گے...... انشاءاللہ
مصباح چوہدری🇵🇰
Comments
Post a Comment