رات کا پچھلا پہر

رات کا پچھلا پہر ہے ہر طرف خاموشی ہے یخ بستہ ہوا نے سردی کو مزید بڑھا دیا ہے اور دھند کی چادر نے ہر چیز کے نقش دھندلا دئیے ہیں.ایسے میں میں سوچ رہی تھی کہ ایک دھند تو یہ جو ہر شے پہ چھائی ہے مگر ایک دھند ہمارے اندر بھی ہے جو ہمارے اصل کو دھندلا رہی ہے جس نے ہمارے ہر روپ ہر چہرے کو اپنی آغوش مادر میں چھپا رکھا ہے. سو سال بھی جی لیں مگر اس دھند کی وجہ سے ہم خود کو پہچان ہی نہیں پاتے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم کون ہیں؟ کیوں ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟ ہماری تخلیق مٹی سے کیوں ہوئی جبکہ ہمیں تو خلیفہ بننا تھا پھر نور ہمارے حصے میں کیوں نہیں آیا؟؟ آخر ہمیں دوہرے عزاب میں مبتلا رکھنے کا سبب کیا تھا خیر اور شر دونوں ہم میں سمونے کی ضرورت کیا تھی؟ ہر وقت ایک دوڑ میں ہیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ریس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ریس ہر ایک کو جلدی ہے ہر ایک جیتنا چاہتا ہے مگر کوئی نہیں جانتا جیت کیا ہے؟ وہ منزل کونسی ہے جس کے لیے بھاگ رہے؟ ہمیں ماضی کیوں رلاتا ہے؟ ہمیں اگلی سانس کا نہیں پتہ تو پھر مستقبل محفوظ نہ ہونے کا خوف کیوں ہمیں حال میں رہنے نہیں دیتا؟؟ ہماری پیشانی کا اسم عظیم ہمیں دو ٹکے کا ہونے سے روک کیوں نہیں پاتا؟ ہم مٹی سے بنے ہیں تو پھر مٹی سے بھاگتے کیوں ہیں؟ جب زمین ہمارا ہمیشہ کا ٹھکانہ نہیں تو عارضی گھر کی مصلحت کیا ہے؟ اللہ کو اپنی بڑائی اور محبوب کی سچائی کے لیے ہماری شہادت کی ضرورت کیوں ہے؟ نفس کا بیج بو کر حی علی الصلاح کی صدا کی منطق کیا ہے؟ یہ اور اس جیسے کئی سوال ہمارے اصل سے جڑے ہیں جو دھند چھٹتے ہیں سر اٹھائے کھڑے ہو جاتے ہیں. پھر میں سوچتی ہوں کہ اندر کی دھند کتنی بڑی نعمت ہے جو ان سوالوں کی قید سے ہمارا وجود آزاد رکھتی ہے ورنہ سوال در سوال تو ہمیں سکون سے وحشت میں دھکیل دیں. خود کو اس کائنات کو تسخیر کرنے کی چاہ جس کے حصے میں آئی اسکے حصے میں پھر سکون اور بے فکری کبھی نہیں آئے. آگاہی کے عذاب نے ہمیشہ اسے بے قرار رکھا......
مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار