دسمبر

چلو میں مان لیتی ہوں
کہ دسمبر ہی تو مجرم ہے

اس یک لخت سے
دو لخت کی غمگیں کہانی کا
میدان کارزار میں لٹتی
بھٹو کی جوانی کا

چلو میں مان لیتی ہوں
دسمبر ہی تو مجرم ہے

ابھی اسکے کھاتے میں
کئی سر بھی تو باقی ہیں
جگر کٹ گئے جنکے
وہ گھر بھی تو باقی ہیں

چلو میں مان لیتی ہوں
دسمبر ہوتو مجرم ہے

مگر تم بھی مان جاو ناں.
دسمبر اک مہینہ ہے
کیلنڈر کے نگینوں میں
یہ فقط اک نگینہ ہے

اسے بدنام کیوں کر دیں؟
اپنی بے اعتنائی کا
اپنی ساری خطاوں کا
اسے الزام کیونکر دیں؟

خطا کے بیج بوئے تھے
جفا کی فصل کاٹی ہے
کہ ہم نے پت جھڑ کے موسم میں
سزا بہت سخت کاٹی ہے

مصباح چوہدری

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

I am a d-girl

بچوں کی زندگی میں والدین کا کردار