Posts

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ

 موٹروے پہ ایسا اندوناک واقعہ یقیناً قابل مزمت ہے اتنا تکلیف دہ ہے کہ موت بھی اس سے بہتر لگے.ابھی تو محرکات کی جان پہچان ہی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پہ ایک طوفان امنڈ آیا. ہر کوئی اپنا اپنا پنڈورا باکس کھول کے بیٹھ گیا. حیرت ہوئی کہ پچھلے کچھ عرصے سے خاموش میرا جسم میری مرضی والوں کو ایک بار پھر زبان لگ گئی اور عورت ذات کو ایسا مظلوم بنا کے پیش کیا گیا جانے لگا کہ یہ زمین اسکے لیے تنگ ہو گئی ہے اب اسکو اپنے حق کے لیے باہر نکلنا چاہیے مردوں کے خلاف جا کر انکو ناکوں چنے چبوانے چاہیں. دوسری طرف سیاستدانوں اپنی سیاست چمکانے کے لیے میدان میں اتر آئے.کسی کو نہ عورت سے غرض تھی نہ اس بچی سے اور نہ ہی قتل ہونے والے ہیجڑے سے. سب کو ثابت صرف یہ کرنا تھا کہ وہ ٹھیک ہے اسکو تکلیف زیادہ ہوئی ہے. تکلیف حد سے بڑھ گئی جب فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا چینلز پہ ریاست پاکستان کی خوب مٹی پلید کی گئی. ٹی وی چینلز پہ ایسا شور برپا ہوا کئی بیبیاں روئی پیٹی کہ ہم جہنم میں ہیں. ایسا جہنم ایسا قید خانہ جہاں انکی عزت کسی وقت بھی تار تار ہو سکتی ہے. ایسا ملک جہاں کوئی محفوظ نہیں ایسا ملک جہاں غنڈے سر عام پھر رہے

گینگ ریپ

 دن دیہاڑے بیچ سڑک عورت کا گینگ ریپ.. سننے کو ایسا لگتا ہے جیسے کسی فلم کا سین ہو مگر بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے. میں بہت دیر سوچتی رہی کہ کیا اس عورت کا لباس جسم کو برہنہ کرنے والا تھا یا اسکی ادائیں دل لبھانے والی ہونگی یا پھر ضرور وہ عورت ہی ٹھیک نہیں ہونی خود ہی پہلے لوگوں کو پیچھے لگایا جب دل بھر گیا تو چھوڑنا چاہتی ہونی تبھی تو انہوں نے بدلا لینے کے لیے ایسا کیا. مگر ان میں کوئی بات بھی درست نہیں تھی وہ تو گاڑی میں تھی دو بچے ہمراہ تھے اپنے شوہر سے بات بھی کر رہی تھی تو پھر؟ کیا وہ مرد نہیں بھیڑیے تھے جو تاک میں تھے کہ کہاں کوئی عورت ملے اور وہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنائیں؟ شاید ایسا ہی ہوگا وہ ایسے اوباش نوجوان ہونگے جنکی رگوں میں باپ کا حرام مال ابل رہا ہو گا یا پھر ایسے جنکی محبوبائیں انکو چھوڑ امیر ذادوں کے پہلو میں جا بیٹھی ہونگی یا یوں بھی ہو سکتا کہ پڑھے لکھے ہوں روزگار نہ ہو معاشرتی دباؤ اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہوں اور اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے جنسی تعلق سے بہتر کوئی ذریعہ نا پایا ہو. یا پھر یہ بھی عین ممکن ہے دوستوں نے گاڑی میں سوشل میڈیا پہ کچھ دیک

اصل تبدیلی

 ہمارے نظامِ تعلیم سے اختلاف تو مجھے ہمیشہ سے رہا ہے. خاص کر مطالعہ پاکستان کے نام پہ مختلف مضامین کا ملغوبہ ایک عجیب مزاق ہے. مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف  یونیورسٹیز میں خالص سائنسز میں مارکسزم کے ملانے پہ ہوئی. نہ ہماری تعلیم اپنی, نہ رہن سہن اور نہ ہی سوچ. پچھلے تہتر سالوں کا اگر جائزہ لیں تو ہمارے پاس چند ایک اچھے ڈاکٹرز اور گنتی کے سائنس دان آئے ہیں. ہاں کن ٹُٹے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں مگر اصل دانشور آٹے میں نمک کے برابرہیں.  آئی آر, سوشیالوجی, پبلک ایڈمنسٹریشن, لاء, اور دیگر سوشل سائنس سبجیکٹس قیام پاکستان سے پہلے کے پڑھائے جا رہے ہیں. مگر پالیسیز, تھیوریز میں ہمارا نام کہیں نہیں ہے ہم آج بھی مجبور ہیں کارل مارکس, ایڈم سمتھ, مارشل, ڈرخائم اور سپنسر وغیرہ پڑھنے کو. کیوں؟ پڑھنے میں برائی نہیں ہے مگر اس میں ہماری شراکت کہاں ہے؟ اتنے سالوں میں جو پڑھائے گئے وہ نہ ایجوکیشنسٹ بنے, نہ سکالر نا مفکر, نہ اچھے ڈاکٹر, نہ انجینئیر اور نہ ہی سائنسدان تو پھر کیا بنے؟ قانون وہی جو انگریزوں نے بنایا. تھیوریز وہی جو گورے دے گئے تو ہمارے تعلیمی ادارے اور وزارتیں کیا جھک مارنے کو بنائی گئی ہیں؟؟ اگ

طلاق

 آج کل ایک سوال جو تواتر سے سننے اور دیکھنے میں آرہا ہے وہ پڑھی لکھی خاص کر برسر رازگار خواتین میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق ہے. کچھ دوستوں کا ماننا ہے کہ پڑھی لکھی عورت باشعور ہوتی ہے لہذا خود کے ساتھ ظلم یا کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کرتی اور اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے علیحدگی کو ترجیح دیتی ہے.سننے میں یہ بات دل کو لگتی ہے اور سمجھ بھی آتی ہے. مگر کیا ہمیشہ ایسا ہوتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں. ہم لوگ بعض اوقات اپنے مقصد کے لیے شعور کے معنی و مفہوم کو ہی بدل دیتے ہیں. شعور جہاں اپنے حقوق سے روشناس کرواتا ہے وہیں فرائض کا بگل بھی بجاتا ہے جسے ہم در خور اعتنا نہیں سمجھتے. شادی سے پہلے ہی علیحدہ گھر کو تصور, ساس سسر نندوں دیور جیٹھ کے جھنجھٹ سے آزادی کے خواب آنکھوں میں سجنے لگتے ہیں. فلموں ڈراموں اور ناولوں جیسی رومانوی زندگی کی سوچ اکثر باقی گھر والوں کو اپنی رازداری (privacy) میں بڑی رکاوٹ ماننے لگتی ہے. شادی کے بعد اب جب یہ خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو لہجوں کی شرینی کہیں تیل لینے چلی جاتی ہے. وہ بیبیاں جو میں دہی جمائے رکھتی تھی سوئے سے برف توڑنے لگتی ہیں. تعلیم ہونے کے باوجود تربیت

بچپن کا اگست

یہ بات ابھی چند سال پرانی ہے مگر ایسا لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں. اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی کمر کس لی جاتی تھی گھر کے سارے بچے اپنی جیب خرچی جوڑنا شروع کر دیتے تھے تاکہ چودہ اگست کو سب سے زیادہ جھنڈیاں انکے گھر لگی ہوں. اور دلہن کی طرح سجا گھر ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنا رہے. مقابلہ سخت اور وقت کم ہوتا تھا. تیرہ اگست کی شام جھنڈا جھنڈیاں گوند اور لیوی جو خود پکائی جاتی یا بنوائی جاتی کسی جنگی سازوسامان کی طرح مورچوں تک پہنچا دی جاتی تھی. سارے بہن بھائی کزنز شام ہوتے ہی گھروں کی چھتوں پہ ڈیک اور بیفلیں لگانا شروع کر دیتے تھے. اور ساری رات ان پہ چلنے والے ملی نغمے خون کو گرماتے اور بچے بڑے سب بڑی جانفشانی سے گھر اور گلی سجانے میں مصروف رہتے تھے. ایک عجیب سی کیفیت ہوتی تھی سب جانتے تھے کہ صبح بارش ہوگی انکی ساری محنت پہ پانی پھر جائے گا مگر ایک جنون تھا جو کسی طور کم نہ ہوتا تھا. صبح کی ہلکی اور تیز بارش میں گرنے والی جھنڈیوں کو نہ صرف اٹھایا جاتا بلکہ انہیں چوم کے آنکھوں سے لگانا بھی محبت کا ایک اہم جز تصور کیا جاتا تھا. اس جوش کی وجہ شاید وہ داستانیں تھیں جو دادی, دادا, نانی اور نان

محرومیوں کی چادر

محرومیوں کی چادر بڑی وسیع ہوتی ہے ساری نعمتوں ساری رحمتوں پہ چھا جاتی ہے مگر پھر بھی اسکا خالی پن نہیں بھرتا. انسان بڑا کم ظرف ہے وہ اس چادر کی بکل مارے لاحاصل کے پیچھے بھاگتا حاصل کو پاوں میں روند ڈالتا ہے. لاحاصل کی تمنا گلستاں کو صحرا میں بدل ڈالتی ہے ایک ایک پھول نوکیلی جھاڑیوں جیسے چبھتا ہے جسکا ایک ہی کانٹا دامن لیرولیر کر دے. پتہ نہیں یہ اسکی کم علمی ہے یا کم ظرفی. مگر میرا اللہ بڑا رحمان و رحیم ہے وہ خاموشی سے اپنا کام جاری رکھتا ہے دینے سے ہاتھ نہیں کھینچتا وہ چادر کی تہوں میں بھی ترسیل جاری رکھتا ہے. بس دور کر دیتا ہے خود سے اپنے رستے سے اور توفیق چھین لیتا ہے شکر کی اور چھایہ دور کر دیتا ہے صبر کی.یہی تباہی ہے انکے لیے جو انگلی کے ناخن کے زخم کو پورے جسم پہ مسلط کر لیتے ہیں. مگر ندامت کا ایک آنسو, اذیت کی گھڑیوں میں پکارا گیا اللہ کا نام رشتہ بحال کر سکتا ہےملعون کو ممنون بنا سکتا ہے. اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں بس خواہشات و ضروریات کی کشتی کو اسکی رضا کی لہروں کے سپرد کردیں پھر دیکھیں کہ منزل کیسے قدم چومتی ہے.  جمعہ مبارک مصباح چوہدری

بے ارادہ

پتہ ہے ہم ٹوٹ جاتے ہیں اندر ہی اندر ذات کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے نیندوں سے خواب اور راتوں سے نیندیں ہجرت کر جاتی ہیں. مگر دنیا چلتی رہتی ہے. نہ کوئی مرتا ہے اور نہ کسی کو احساس ہوتا ہے. لوگ بس اپنی وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے محبت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے اعصاب پہ سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں.   مگر افسوس کے حواس خمسہ پہ چھانے والے,  محبتوں میں لبھانے والے  دل کے آنگن میں گھر بنانے والے یوں دبے پاوں چلے جاتے ہیں کہ جیسے کبھی ہم انکی قیام گاہ ہی نہ رہے ہوں. ایسے لوگوں کو کیا خبر کہ کچی محبتوں کے پکے دکھ. بھنوروں کا بھیس بدل کر گلشن کے ہر پھول کو نوچتے ہیں,  بے خودی میں اہل دل سب بے سروپا ہی سوچتے ہیں. مگر انکو کیا خبر کہ ..خوشی کے موسم سے دامن چھڑا کے چاہتوں کو بے کتبہ دفنا کہ اداسیوں کے اسیر ہم وفا کے وسیع پانیوں میں اپنے کیے کو نتارتے ہیں محبتوں کو نکھارتے ہیں اذیتوں کو پکارتے ہیں کہ اپنے دل میں کسی بت کو بے ارادہ سنوارتے ہیں.  مصباح چوہدری