طلاق

 آج کل ایک سوال جو تواتر سے سننے اور دیکھنے میں آرہا ہے وہ پڑھی لکھی خاص کر برسر رازگار خواتین میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق ہے. کچھ دوستوں کا ماننا ہے کہ پڑھی لکھی عورت باشعور ہوتی ہے لہذا خود کے ساتھ ظلم یا کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کرتی اور اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے علیحدگی کو ترجیح دیتی ہے.سننے میں یہ بات دل کو لگتی ہے اور سمجھ بھی آتی ہے. مگر کیا ہمیشہ ایسا ہوتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں. ہم لوگ بعض اوقات اپنے مقصد کے لیے شعور کے معنی و مفہوم کو ہی بدل دیتے ہیں. شعور جہاں اپنے حقوق سے روشناس کرواتا ہے وہیں فرائض کا بگل بھی بجاتا ہے جسے ہم در خور اعتنا نہیں سمجھتے. شادی سے پہلے ہی علیحدہ گھر کو تصور, ساس سسر نندوں دیور جیٹھ کے جھنجھٹ سے آزادی کے خواب آنکھوں میں سجنے لگتے ہیں. فلموں ڈراموں اور ناولوں جیسی رومانوی زندگی کی سوچ اکثر باقی گھر والوں کو اپنی رازداری (privacy) میں بڑی رکاوٹ ماننے لگتی ہے. شادی کے بعد اب جب یہ خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو لہجوں کی شرینی کہیں تیل لینے چلی جاتی ہے. وہ بیبیاں جو میں دہی جمائے رکھتی تھی سوئے سے برف توڑنے لگتی ہیں. تعلیم ہونے کے باوجود تربیت کا فقدان غالب آنے لگتا ہے. ادب لحاظ رکھ رکھاؤ کو کسی کنوئیں میں ڈال دیا جاتا ہے اور صبرو تحمل نامی چڑیا تو پنجرے توڑ اڑ جاتی ہے اور ایسا دونوں طرف سے ہوتا ہے. باہو رانی اور ساس سیانی دونوں اپنی حکمرانی کی جنگ لڑتی ہیں اور گھر کا وہی حال ہوتا ہے جو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا. یہاں قابل غور چیز یہ بھی ہے کہ بہو چاہتی ہے جب وہ نوکری سے تھکی ہاری گھر میں آئے میں تو گھر والے اسکی آؤ بھگت کریں. فرمائش بالکل جائز ہے. دوسری جانب ساس اور باقی گھر والے کہتے ہیں کہ نوکری اپنے لیے کرتی ہے ہم احسان نہیں کرتی کہ ہم اس کے ناز نخرے اٹھائیں. بات یہ بھی ٹھیک ہے. مگر جب باتیں دونوں ٹھیک ہیں تو لڑائی کیا ہے؟ بات بہت سادہ سی ہے مرد اگر باہر سے تھکا ہارا آتا ہے تو عورت بھی تھک جاتی ہے وہ کوئی مشین نہیں ہے نہ کوئی خلائی مخلوق کے جسکو تھکن نہ ہو. ایسے میں گھروالوں کو چاہیے کہ حوصلہ افزائی کریں اور عورت کے آرام کا خیال رکھیں. مگر عورت کو بھی چاہیے کہ وہ بانٹنا سیکھے پھر بھلے محبت ہو عزت کہ پیسہ. اگر بہو اپنی تنخواہ پہ سانپ بن کر بیٹھنے کی بجائے اسکے تین حصے کرے ایک اُن والدین کے جنہوں نے اس پہ خرچ کیا دوسرا سسرال والوں کے لیےکہ جن کے حصے کا وقت اس نے نوکری کی نذر کیا اور اپنے حصے کے کام نہیں کیے جو کرنے چاہیں تھے. تیسرا حصہ خود رکھے کہ اسکی محنت ہے. اور سسرال والے بھی پوری تنخواہ کو باپ کا مال سمجھنے کی بجائے جو ملے اس پہ اکتفا کرنا سیکھیں تو حالات کافی بہتر ہو سکتے ہیں. رشتوں کو محبت سے باندھ کے رکھیں. علم کو گردن کا سریا اور انا کو ماتھے کا جھومر نہ بنایا ہے جائے تو رشتوں کی وادی میں محبتوں کے گل کھلتے ہیں عزتوں کی خوشبو پھیلتی ہےاحترام کی ہوائیں چلتی ہیں. رکھ رکھاؤ کا ماحول بنتا ہے.

مصباح چوہدری

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

بے ارادہ

گینگ ریپ

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ