گینگ ریپ

 دن دیہاڑے بیچ سڑک عورت کا گینگ ریپ.. سننے کو ایسا لگتا ہے جیسے کسی فلم کا سین ہو مگر بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے. میں بہت دیر سوچتی رہی کہ کیا اس عورت کا لباس جسم کو برہنہ کرنے والا تھا یا اسکی ادائیں دل لبھانے والی ہونگی یا پھر ضرور وہ عورت ہی ٹھیک نہیں ہونی خود ہی پہلے لوگوں کو پیچھے لگایا جب دل بھر گیا تو چھوڑنا چاہتی ہونی تبھی تو انہوں نے بدلا لینے کے لیے ایسا کیا. مگر ان میں کوئی بات بھی درست نہیں تھی وہ تو گاڑی میں تھی دو بچے ہمراہ تھے اپنے شوہر سے بات بھی کر رہی تھی تو پھر؟ کیا وہ مرد نہیں بھیڑیے تھے جو تاک میں تھے کہ کہاں کوئی عورت ملے اور وہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنائیں؟ شاید ایسا ہی ہوگا وہ ایسے اوباش نوجوان ہونگے جنکی رگوں میں باپ کا حرام مال ابل رہا ہو گا یا پھر ایسے جنکی محبوبائیں انکو چھوڑ امیر ذادوں کے پہلو میں جا بیٹھی ہونگی یا یوں بھی ہو سکتا کہ پڑھے لکھے ہوں روزگار نہ ہو معاشرتی دباؤ اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہوں اور اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے جنسی تعلق سے بہتر کوئی ذریعہ نا پایا ہو. یا پھر یہ بھی عین ممکن ہے دوستوں نے گاڑی میں سوشل میڈیا پہ کچھ دیکھا ہو شاید کسی پورن ویڈیو نے جذبات میں ہلچل مچا رکھی ہو ایک کتاب زہن میں کھل گئی تھی جسکے ہر ورق پہ نئی کہانی نیا شک تھا یہ بھی ہوسکتا ہے وہ بھی ہو سکتا ہے. یہ تو مداخل ہیں مگر ماحاصل تو جنسی زیادتی تھی جو ہو گزری. ہر ایک نے اس پہ اپنی رائے دینا ضروری جانی کسی نے اسکو نفسیاتی بیماری قرار دیا تو کسی نے قانون کا نقص. اور کسی نے اسلام سے دوری. ماہر معاشیات کو لگا معاشی مسئلہ ہے اور رویوں میں تغیر اسی مسئلے کا نتیجہ ہے, دیندار بھی خاموش نہ رہے سوچا سزا تو موت کی بنتی ہے, کسی نے رائے دی سالوں کو کوڑے لگائے جائیں اتنے کہ انکی کھال اتر جائے تو کسی کی صلاح تھی کہ نعشیں بیچ چوراہے لٹکائی جائیں تا کہ باقی عبرت پکڑیں. غرض ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا تھا. تب سمجھ آیا کہ اصل مسئل یہ راگ ہے یہ شور ہے ہر بات ٹھیک ہے مگر اس شور میں کسی آواز کی انفرادی اہمیت نہیں رہتی بس اک شور سنائی دیتا ہے. یقیناً یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کیونکہ کوئی اعصابی طور پہ صحتمند انسان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تو کیا ایسے بیماروں کو چھوڑ دیا جائے؟ اگر ایسا ہے تو 5 سال کے لڑکے سے لیکر اسی سال کی اماں تک سب یہی کرتے ہیں جہاں جیسے موقعہ ملتا ہے کوئی ہاتھ استعمال کرتا تو کوئی سوشل میڈیا پہ چٹ چیٹ کر کے نفس کی تسکین کرتا ہے. کسی کو پورن ویڈیوز کا چسکا ہے تو کسی کو پورا جسم چاہیے اپنی ضرورت کے لیے. دوسرے الفاظ میں ہم سب کا الٹیمیٹ گول سیکس ہے.پھر وہ جہاں ملے جس حال میں ملے. اس طرح تو ہم سب بیمار ہیں نفسیاتی بیمار. تو قانون کیا کہتا ہے؟ کیا بیماروں کے لیے کوئی ریلیکسیشن ہے؟ اگر ہے تو کیا ہماری 90 فیصد آبادی کو ملے گی؟ ہمارے ہاں زیادتی پہ پتہ نہیں کیسی سزا ہے 14 سال قید یا سزائے موت یا پھر کچھ اور. سزا جو بھی ہو لیکن سزا کا عمل اتنا طویل ہے کہ سزا کا اعلان ہونے تک اگلے دس واقعات میں ہم وہ واقعہ بھول چکے ہوتے ہیں. کیا شریعت میں اسکا کوئی حل ہے؟ ہاں بالکل ہے. مگر اسکے لیے گواہان کی گواہی درکار ہے. اب اگر چار بندے وہاں موجود ہوتے تو کیا ایسا ہونے دیتے؟ اگر تھے اور انہوں نے بچایا نہیں تو وہ تو مجرم ہونگے انکی گواہی کیسی؟ یا یہ ممکن ہے کے انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے ہوں. یا اگر وہ لوگ پاک صاف بھی ہوں تو ان سے سوالات کچھ یوں کیے جاتے کہ انکو لگتا ہے کہ بہتر تھا آنکھیں بند کر لیتے.. تو کیا اسکا کوئی حل نہیں؟؟ 

اسکا حل پوشیدہ ہے عملاً مسلمان ہونے میں. تعلیم میں مگر ایسی تعلیم جو جاننے کے لیے ہو بہتری کے لیے ہو نوکری والی تعلیم اسکا حل نہیں ہو سکتی. اسکا حل قدیم اور جدید کے اشتراک میں ہے ہمیں اسلامی قانون کو دور جدید کے مطابق ڈھالنا ہو گا. ہمارے ہاں جس چیز کو پس پشت ڈال دیا جاتا وہ ہے حرام رزق جو جسم میں داخل ہو کے ایسی آگ لگاتا ہے کہ بہت سے لوگ اسکا لقمہ بن جاتے ہیں. ہمیں ترغیب دینا ہوگی رزقِ حلال کی.ہاں تعلیم کے ساتھ سزا ایسی چیز ہے جو بے حد ضروری ہے ہمیں ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا تاکہ ان برائیوں کے سدباب کی طرف بڑھا جاسکے. یہی وقت ہے کہ ہمیں الفاظ سے آگے نکل کے کچھ کرنا ہوگا. ورنہ پھر سے واقعات ہونگے ہم ٹاپ ٹرینڈ چلائیں گے. مگر ہوگا کچھ نہیں.

سوچیے آخر کب تک... ہمیں یہ سہنا ہوگا

مصباح چوہدری

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

بے ارادہ

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ