بے ارادہ

پتہ ہے ہم ٹوٹ جاتے ہیں اندر ہی اندر ذات کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے نیندوں سے خواب اور راتوں سے نیندیں ہجرت کر جاتی ہیں. مگر دنیا چلتی رہتی ہے. نہ کوئی مرتا ہے اور نہ کسی کو احساس ہوتا ہے. لوگ بس اپنی وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے محبت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے اعصاب پہ سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں. 
 مگر افسوس کے حواس خمسہ پہ چھانے والے, 
محبتوں میں لبھانے والے
 دل کے آنگن میں گھر بنانے والے یوں دبے پاوں چلے جاتے ہیں کہ جیسے کبھی ہم انکی قیام گاہ ہی نہ رہے ہوں. ایسے لوگوں کو کیا خبر کہ کچی محبتوں کے پکے دکھ. بھنوروں کا بھیس بدل کر
گلشن کے ہر پھول کو نوچتے ہیں, 
بے خودی میں اہل دل سب
بے سروپا ہی سوچتے ہیں.
مگر انکو کیا خبر کہ ..خوشی کے موسم سے دامن چھڑا کے
چاہتوں کو بے کتبہ دفنا کہ
اداسیوں کے اسیر ہم
وفا کے وسیع پانیوں میں
اپنے کیے کو نتارتے ہیں
محبتوں کو نکھارتے ہیں
اذیتوں کو پکارتے ہیں
کہ اپنے دل میں کسی بت کو
بے ارادہ سنوارتے ہیں. 
مصباح چوہدری

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

گینگ ریپ

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ