اصل تبدیلی

 ہمارے نظامِ تعلیم سے اختلاف تو مجھے ہمیشہ سے رہا ہے. خاص کر مطالعہ پاکستان کے نام پہ مختلف مضامین کا ملغوبہ ایک عجیب مزاق ہے. مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف  یونیورسٹیز میں خالص سائنسز میں مارکسزم کے ملانے پہ ہوئی. نہ ہماری تعلیم اپنی, نہ رہن سہن اور نہ ہی سوچ. پچھلے تہتر سالوں کا اگر جائزہ لیں تو ہمارے پاس چند ایک اچھے ڈاکٹرز اور گنتی کے سائنس دان آئے ہیں. ہاں کن ٹُٹے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں مگر اصل دانشور آٹے میں نمک کے برابرہیں.  آئی آر, سوشیالوجی, پبلک ایڈمنسٹریشن, لاء, اور دیگر سوشل سائنس سبجیکٹس قیام پاکستان سے پہلے کے پڑھائے جا رہے ہیں. مگر پالیسیز, تھیوریز میں ہمارا نام کہیں نہیں ہے ہم آج بھی مجبور ہیں کارل مارکس, ایڈم سمتھ, مارشل, ڈرخائم اور سپنسر وغیرہ پڑھنے کو. کیوں؟ پڑھنے میں برائی نہیں ہے مگر اس میں ہماری شراکت کہاں ہے؟ اتنے سالوں میں جو پڑھائے گئے وہ نہ ایجوکیشنسٹ بنے, نہ سکالر نا مفکر, نہ اچھے ڈاکٹر, نہ انجینئیر اور نہ ہی سائنسدان تو پھر کیا بنے؟ قانون وہی جو انگریزوں نے بنایا. تھیوریز وہی جو گورے دے گئے تو ہمارے تعلیمی ادارے اور وزارتیں کیا جھک مارنے کو بنائی گئی ہیں؟؟ اگر کچھ نیا بنانے کی بجائے انہی سبکو پڑھایا اور اپنایا جانا ہے تو برطانیہ کی کالونی بنے رہنے میں کیا برائی تھی. ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ بری ہے. سونے پہ سہاگہ کہ یونیورسٹیز میں آئے دن سپر وائزر کے طالبات ساتھ زیادتی کے واقعات. اگر پی ایچ ڈی کر کے بھی ہم جسم کی دلدل سے نہیں نکل پائے تو لعنت ہے اس تعلیم پہ, ادارے پہ تربیت پہ اور معاشرے کے رویوں پہ. اایک درس گاہ جہاں کردار کی پختگی اور شکست کی تکمیل کا عمل ہونا چاہیے وہاں عزتوں کی پامالی ہو رہی ہے.انتہائی تکلیف دہ ہے آذادی کے نام عریابی, پڑھائی کے نام پہ بے غیرتی, جاننے کی بجائے انجوائےمنٹ اور تحقیق کی بجائے تنقید.یہ کس ڈگر پہ جا رہے ہیں ہم؟ کچھ نہیں سوچتے کچھ نہیں کرتے سوائے تزلیل و تحقیر کے. پچھلے کچھ عرصے سے سیاست دانوں اور آرمی کے خلاف ایک کمپین سمجھ سے بالاتر ہے. اسکے برعکس باقی سب آذاد ہیں.پتہ نہیں تعلیمی میدان میں موجود فرعونوں کو کیوں کٹہرے میں نہیں لایا جاتا؟ میڈیا انڈسٹری میں موجود کالی بھیڑیں کیوں بے نقاب نہیں ہوتیں؟ آرٹ اور کلچر کے نام پہ بے حیائی کی پوچھ گچھ کیوں نہیں ہے؟ سوشل میڈیا پہ اپنے سٹیٹس کے پرچار سے ستر فیصد آبادی کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے پہ بات کیوں نہیں ہوتی؟ علماء کے لبادے میں مدرسہ کے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کیونکر کیفر کردار تک نہیں پہنچتے؟ محافظوں کے بھید میں قاتل کب تک سرے عام نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہیں گے؟؟ جزا اور سزا کے مفہوم سے ماوری لوگ جہنم کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں. اور جنت بھی اپنی مرضی سے الاٹ کرنے کے جھانسے دے رہے ہیں. دماغی مفلوج قوم ہوتی ہے جو تحقیق نہیں کرتی, تجربے نہیں کرتی, اور دوسروں کے کہنے میں آکر اپنے حالات کو بدلنے کی سعی نہیں کرتی بس تنقید کرتی ہے. اور غلام ابن غلام ہوتے ہیں وہ لوگ کسی بھی دوسرے علاقے کی ترقی کی منصوبہ بندی کا اندھا دھند اپنانے کی روش اختیار کرتے ہیں کیونکہ ہر علاقے کے حالات آلات خیالات ماحول سوچ سب مختلف ہوتے ہے, اور عقل سے پیدل ہوتے ہیں وہ زہن جو حالات و واقعات سے ماوری ہو کر کسی کمزور لمحے میں کی گئی کسی مجبور دانشور کی مخالف بات کو دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں, کچھ تو نیا کیجیے, کوئی تو تبدیلی لائیے, خالی تنقید کا ڈھول پیٹ کر زیادہ دیر تک مجمع اکٹھا نہیں کیا جا سکتا, پولیٹیشنز برے ہیں آپ تربیت کریں پالیسیز سخت کریں لوپ ہولز ختم کریں, آرمی نہیں ٹھیک کر رہی آپ پالیسی دیں, قانون مضبوط کریں کہ جسکی گرفت جج جنرل پرائم منسٹر اور پریذڈنٹ کی گردن تک ہو, تحقیق کریں, تجربہ کریں, تربیت کریں اور پھر دیکھیں سب کیسے اپنے مدار میں رہتے ہیں. ابھی تو ہم دوسروں کو انکی راہ سے ہٹتا دیکھ انہیں بتانے کے لیے اپنی راہ سے کوسوں دور نکل آتے ہیں. بیمار زہن کا ایک ہی علاج ہے "تعلیم" ..ڈگری والی نہیں جاننے والی راہ کھولنے والی کائنات کے رازوں سے پردے ہٹانے والی انسانوں کو ان کے اصل سے روشناس کروانے والی اور راہوں کا بہتر تعین کرنے والی....

سوچیے اور عمل کیجیے, سوشل میڈیا پہ لائکس بڑھانے کے لیے نہیں تبدیلی لانے کے لیے..مثبت تبدیلی ورنہ منفی تبدیلی تو خود ہی آجائے گی

مصباح چوہدری

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

بے ارادہ

گینگ ریپ

پاکستان...پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ