مکروہ کردار
کچھ لوگوں کے مکروہ کردار سے پوری انسانیت کا چہرہ کتنا مسخ شدہ لگتا ہے اسکا اندازہ مجھے ایک پری میچور بچے کے مردہ وجود کی تصویر سے ہوا. حضرت انسان کی آذادی سے خوف آیا کہ آذادی ملنے پر نفس کا مشکی گھوڑا گناہ کے راستے پہ سر پٹ بھاگنے لگتا ہے اور پھر اپنی دوڑ میں عزت وقار ایمانداری روایات نام و نسب سب کو روندتا ہوا تسکین کے سفر پہ گامزن رہتا ہے اور نتیجتاً انسان اور حیوان کی خصلت میں فرق نہیں رہتا دونوں کی اولادیں کوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں. یہ کیفیت بہت تکلیف دہ ہے مرد اور عورت کے اس روپ سے شاید شیطان بھی منہ پھیر لیتا ہوگا. یہ ایسا آئینہ ہے کہ جس کے سامنے ساری انسانیت برہنہ دکھائی دیتی ہے. مگر اس سے بھی زیادہ اذیت ناک وہ محرکات ہیں جو ایک انسان کو حیوان بننے پہ مجبور کر دیتے ہیں. ان محرکات میں نکاح کا مہنگا ہونا سر فہرست ہے. لڑکا کماتا کیا ہے؟ پڑھا کتنا ہے؟ ترقی کے مواقعے کتنے ہیں؟ گھر بار اپنا ہے؟ خاندان بڑا تو نہیں؟ باپ کیا کرتا ہے؟ جبکہ دوسری جانب لڑکی کیسی ہے؟ منہ متھے لگتی؟ پڑھی کتنا؟ نوکری کرتی؟ باپ بھائیوں کا کیا کاروبار؟ جہیز میں کیا دیں گے؟ پڑھ لکھ کے نوکری نہیں کرتی تو پڑھنے کا کیا فائدہ؟ موٹی تو نہیں؟ ناک لمبا ہے ناں؟ ہونٹ موٹے نہ ہوں؟ یہ اور ان جیسے ان گنت سوالات لڑکی اور لڑکے دونوں کے گھر والوں کی زبانوں پہ ہوتے ہیں. اگر کوئی اس کسوٹی کو پار کر بھی لے تو دوسرا مرحلہ ذات پات نام و نسب کا ہوتا ہے. غیر ذات میں اب ہم اپنی اولادیں بیاہیں گے. ہم راجپوت, ہم جٹ ہم آرائیں ہم وٹو ہم گجر ہم سید کیا اب ہم کمی کمینوں سے رشتے کر لیں؟ کیا اب غیر ذات میں رشتہ کر کے اپنی نسلیں برباد کر لیں؟ تو جناب نہیں بالکل نہیں آپ اپنی نسل خراب نہ ہونیں دیں بس آپکی اولاد کسی کی دنیا خراب کر دے آپکی اور اپنی عاقبت خراب کر لے مگر نسل خراب نہیں ہونی چاہیے. کبھی سوچا ہے نکاح میں ذات دیکھنے والے زنا ہر ذات میں کرتے ہیں. ان دونوں عوامل کے علاوہ اگر بات کریں تو جناب ہماری آب و ہوا کھانا پینا وہ ماحول جس میں ہم رہتے ہیں وہ ٹیکنالوجی جسکا ہم استعمال کرتے ہیں یہ سب ایسے عوامل ہیں کہ دس سال کے بچے کو بلوغت تک پہنچا دیں. ہمارا رہن سہن اتنا پریشانیوں بھرا ہے روزگار کی فکر سٹیٹس کی فکر تعلیم کی فکر روشن مستقبل کی فکر بہن بھائیوں کی فکر ماں باپ کی لڑائیوں کی فکر شریکے کے طعنوں کی فکر اپنے ارمانوں کی فکر. اتنی ساری فکریں کسی بھی نیک پارسا انسان کو وقتی تسکین کے عمل کی طرف دھکیل سکتی ہیں. پھر اگر کوئی امیر ہے تو جسم خرید لے گا غریب ہے تو نوچ لے گا عاشق ہے تو فائدہ اٹھائے گا اور پارسا وہی رہے گا جسکو موقعہ نہیں ملا.ایسے حالات میں بے یارو مددگار لاشیں معاشرے کی عزت و ناموس پہ وہ زناٹے دار تھپڑ ہیں کہ جس سے انسانیت کی روح تک لرز جائے. ہم سب مجرم ہیں ہم سب قاتل ہیں ہم سب منافق ہیں. پرہیز گاری نیک نامی اور بندہ پروری کے پردوں میں لپٹے غلیظ لوگ کہ جنکے پردے ہٹتے ہی تعفن پھیل جاتا ہے. اور اسکی بدبو سانس لینا محال کر دیتی ہے اسکی حدت مٹی کی ذرخیزی جلا ڈالتی ہے پھر وہاں محبتوں عقیدتوں چاہتوں اور شرافتوں کی فصل نہیں اگتی بس شر کی جھاڑیاں پھلتی پھولتی ہیں جن سے کوئی دامن محفوظ نہیں رہتا
✍🏻 مصباح چوہدری😢
✍🏻 مصباح چوہدری😢
Hakekat hai
ReplyDelete